• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
پیر, مئی ۱۲, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

دینی مدارس کا سروے کیوں اور کیسے ؟

Online Editor by Online Editor
2022-09-16
in جمعہ ایڈیشن, کالم
A A
دینی مدارس کا سروے کیوں اور کیسے ؟
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے سربراہ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت مدارس کا سروے کرکے قوم میں انتشار پھیلارہی ہے ۔ بورڈ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مدارس کی سروے سے اکثریتی طبقے میں شکوک و شبہات پیدا ہونگے اور ملک میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے ۔ اس حوالے سے اپنے بیان میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ سروے کرنا کوئی معیوب بات نہیں ۔ تاہم صرف ایک فرقے کے اداروں کو اس دائرے میں لانا غیر منصفانہ ہے ۔ انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ ملک کے تمام ایسے اداروں کو سروے کے دائرے میں لاکر یہ کام انجام دیا جائے تو مقصد پورا ہونے کے ساتھ کسی ایک طبقے میں تشویش بھی پیدا نہیں ہوگی ۔ مسلم حلقوں میں مدارس کے حوالے سے تشویش اس وقت پیدا ہوگی جب کئی ریاستی حکومتوں نے مدارس کا سروے کرنے کا اعلان کیا ۔ دینی مدارس ملک کے قریب قریب تما علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کے کام کاج کا جائزہ لے کر اس کی رپورٹ تیار کی جائے ۔ بعض حلقے اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ اتنی تعداد میں مدارس اپنا انتظام کیسے کرپاتے ہیں ۔ اس کا جائزہ لینے کے لئے مدارس کی چھان بین کی جارہی ہے ۔
ملک میں مدارس انگریزوں کے زمانے سے پہلے سے کام کررہے ہیں ۔ پہلی جنگ آزادی کے بعد جب مسلمانوں کا نظام تتر بتر ہوگیا اور مغلیہ سلطنت کے مکمل خاتمے کے بعد تعلیم وتربیت کا کوئی نظام قائم نہ رہا تو مدارس کو مضبوط بنانے کا کام شروع ہوگیا ۔ اس کے لئے کوئی منظم تحریک نہیں چلائی گئی ۔ بلکہ کئی اکابر نے اپنی اپنی جگہ پر مدارس قائم کئے اور یہی مدارس مسلمانوں کی مرکزیت کا کام انجام دیتے رہے ۔ اس دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔ لیکن یونیورسٹی کے حوالے سے کوئی اچھا تاچر مسلمانوں کے اندر پیدا نہ ہوا ۔ یونیورسٹی نے مسلمانوں کے اندر جدید تعلیمی شعور پیدا کرنے میں کامیابی تو حاصل کی ۔ لیکن دین کے حوالے سے اس کا کام تسلی بخش نہ سمجھا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی مسلم شناخت کے علاوہ اس کو کسی طور مسلم ادارہ نہیں سمجھا گیا ۔ خاص طور سے عام اور غریب مسلمان اس ادارے کے لئے اپنے دل کے اندر کوئی اچھاخیال پال نہ سکے ۔ اس کے متوازی مدارس کو ملی تشخص بحال رکھنے کے لئے بنیادی ضرورت سمجھا جانے لگا ۔ مدارس اسلام اور مسلمانوں کے نظریات کے محافظ سمجھے جانے لگے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ترقی پسندی کو فروغ حاصل ہوا جسے دین پسند حلقوں میں مسلم دشمنی سے تعبیر کیا گیا ۔ اس کے بجائے مدارس خاص طور سے دارالعلوم دیوبند کو اسلام کا مرکز سمجھا جانے لگا ۔ یہ تاثر آج تک قائم ہے ۔ اس دوران کئی بار مشورہ دیا گیا کہ مدارس کو جدید خطوط پر استوار کرکے یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو عام کیا جائے ۔ اس حوالے سے مسلمانوں کی تاریخ کا حوالہ دیا گیا کہ یہیں سے جدید علوم کو فروغ ملنے کا آغاز ہوا ۔ بلکہ مسلم مدارس کے اندر ہی کئی سائنسی اور تیکنیکی علوم کے لئے آگے کی راہ ہموار کی گئی ۔ جدید سائنسی علوم کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی اور م کی سرپرستی میں ہی ان علوم کو کمال کا عروج حاصل ہوا ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کا اقتدار چھن گیا اور دنیا کی قیادت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ۔ ایسے دور میں جبکہ مسلمان مکمل طور زوال کا شکار ہوئے تو انہوں نے دین کی حفاظت مدارس کے حوالے کردی ۔ بدقسمتی سے مدارس ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئے جو خود ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ کٹر جاہل اور بے ڈھنگے لوگ تھے ۔ ان کی نظروں میں جدید علوم بے وقعت تھے جن کا قوموں کی ترقی سے کوئی واسطہ نہیں سمجھا گیا ۔ اس وجہ سے دوسری قوموں نے بڑی تیزی سے ترقی کرنا شروع کی اور مسلمان اس دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئے ۔مدارس ملائوں کی دسترس میں آگئے اور یہاں سے ملائوں کے سوا کوئی ایسے لوگ پیدا نہ ہوئے جو قوم کے لئے کسی طورکارآمد ثابت ہوتے ۔ مدارس سے فارغ ہونے والے یہ لوگ کیا واقعی اسلامی تعلیمات کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوئے اس پر بھی سوال اٹھایا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ یہ بات کھل کر کہی جانے لگی کہ اسلام کی ترقی میں یہی مدارس اور ان سے نکلنے والے طلبا سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ ان مدارس نے بنیادی تعلیم کو غریب طبقوں میں پھیلانے کا اہم کام انجام دیا ۔ تاہم یہا ں کوئی معاشی ترقی ہوئی نہ معاشرتی نظام میں کوئی بہتری آئی ۔ مسلمان سمجھ گئے کہ ان مدارس سے چند غریب خاندانوں کو سہارا ملنے اور ترقی کرنے کے علاوہ قومی ترقی کا کوئی کام انجام نہیں دیا جاسکا ۔ اس وجہ سے قومی درد رکھنے والے طبقے مایوس ہوگئے اور انہوں نے دوسروں حلقوں کا رخ کیا ۔اس دوران ملک کے نظام میں کئی اہم تبدیلیاں آئیں اور مدارس ان تبدیلیوں کا جائزہ لینے میں ناکام رہے ۔ یہاں تک کہ اس نظام میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں ۔ سوال یہ ہے کہ پچھلی ایک یا نصف صدی کے دوران یہاں مدارس کا جو جال پھیلا یاگیا اس کی سرمایہ داری کہاں سے ہوئی اور مدارس کے سرپرستوں نے اپنی جو مالی ترقی کی وہ کیسے ممکن ہوئی ۔ یہ صرف حکومت کے لئے سوالیہ نہیں بلکہ عام مسلمانوں کے لئے بھی ایک گتھی ہے جس کو سلجھانا مشکل ہورہاہے ۔ یہاں پیدا اور پلنے والے بھکاری راتوں رات کروڑ پتی کیسے بن گیا اس سوال کا کوئی جواب تلاش کرنا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ دین کے نام پر جو منافع بخش کاروبار چلایا گیا اس نے کئی حلقوں کو حیران کیا اور وہ مبہوت ہورہے ہیں ۔ ان تما سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے سروے کی جارہی ہے ۔ سروے سے یقینی طور مسلمان اداروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ کئی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

لیفٹیننٹ گورنر نے مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر عام تعطیل کا اعلان کیا

Next Post

جمعہ،جمعہ مسجد اور جمن میاں

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
جمعہ،جمعہ مسجد اور جمن میاں

جمعہ،جمعہ مسجد اور جمن میاں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan