
ہم نے دیکھا ہے اور خیر سے آپ بھی دیکھ چکے ہوں گے کہ کچھ چیزیں ہزار جتن کے باوجود نہیں بدلتی ۔ان میں نمایاں مرد کی عورت پہ نیت اور عورت کا مرد پہ شک کرنا ہے۔مرزا کے مطابق ایک اور چیز بھی قیامت تک نہیں بدلی گی وہ ہے عورت کی زبان جو قینچی کی طرح موقع بے موقع چلتی رہتی ہے۔ یہ قینچی مرنے کے بعد ہی تالو کے ساتھ لگتی ہے ورنہ روز رشتے کترتی اور دل جلاتی رہتی ہے۔مرد بوڑھا ہوجائے تب بھی اگر کسی عورت پہ نگاہ ڈالے گا تو بری ہی ڈالے گا اور عورت مرتے دم تک نہ چپ رہ سکتی ہے نہ ہی مرد پہ شک کرنا چھوڑ سکتی ہے۔یہ فطری ہے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پہ بھروسہ کرنا محال ہے۔ان میں سر فہرست موسم ، سترہ سال کی لڑکی ، کشمیر کے حالات اور ہر نکلتے آڈر میں اس خبر کا نہ آنا کہ نیک کالج کے پرنسپل کا تبادلہ نہیں ہوا ہے ۔ بھلے ہی مجھ سے کوئی ناممکن بات کہے میں یقین کرنے کے لیے تیار ہوں جیسے کوئی آکر یہ بتا دے کہ پاکستان نے ہندوستان کو کرکٹ میچ میں شکست دی میں یقین کر لوں گا لیکن کوئی یہ کہیے کہ مذکورہ چیزوں پہ یقین کر لو جانے کیوں ذہن تذیذب کا شکار ہوتا ہے۔موسم کا اعتبار اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ مئی ، جون میں بھی ہم آئے روز یہ نظارے موسم کے دیکھتے ہیں کہ ایک ڈگر پہ نہیں رہتا ۔ نئی نویلی دلہن جس طرح دن میں تین چار مرتبہ کپڑے بدلتی ہے من وعن یہی حال موسم کا ہے۔ صبح شروعات دھوپ سے ہوگی ،دوپہر میں بارش ہو گی، سہہ پہر میں دھوپ اور شام ہوتے ہوتے پتا نہیں کیا نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔سترہ سال کی لڑکی پہ ہی کیا موقوف آج کل عورت ذات بھروسہ کے لائق نہیں ہے۔یقین نہ آئے تو آج کی عورت کو دیکھ لیجیے جو اتنی معصوم ہے کہ جہیز کے لیے قتل تک ہوجاتی ہے اور اتنی ظالم کہ اپنے عاشق کے ساتھ مل کر شوہر کا قتل کر لیتی ہے۔ شرم و حیا کو طاق میں رکھ کر برہنہ گھومنے کو فیشن کہتی ہے۔اس کے قدم تلے جنت ہے لیکن جب بہو بن کر آتی ہے تو گھر کو جہنم بناتی ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ دشمنوں کی چال ہے جو حال کی عورت کو بدنام کررہے ہیں لیکن عورت کو رسوا کرنے کے لیے عورت ہی کافی ہے۔آئے روز ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ عورت کیا انسان پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ یہ ذہن کا فتور بھی ہوسکتا ہے اور پاگل پن بھی کہ عورت بھروسہ کے لائق نہیں۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض پاگل سچے ہوتے ہیں۔ کشمیر کے حالات بھی کچھ اس قسم کے ہیں کہ کب کیا کروٹ لیں کوئی ماہر بھی کچھ نہیں بتا سکتا۔عرصے سے میں ہی نہیں بلکہ ہر آنکھ والا دیکھ رہا ہے اور کان والا سن رہا ہے کہ حالات بہتر نہیں ہوتے بلکہ بد سے بدترین ہورہے ہیں۔مرزا کہتے ہیں کہ حالات پاگل کتے جیسے ہو گئے ہیں۔سب ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں ۔کتا کب کس کو کاٹ لے کوئی نہیں بتا سکتا۔ بچپن میں بچے چھپا چھپی کا کھیل کھلیتے تھے۔اب ویسا ہی کھیل حالات نے بھی کھیلنا شروع کیا ہے۔کبھی خوشی دیتے ہیں تو کبھی فلک شگاف چیخیں۔یہ کس کروٹ بیٹھتے ہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سارے ماہر ریاضی دان اسی حساب میں لگے ہیں کہ حالات سے ایک فرد روتا زیادہ ہے یا ہنستا۔ شاید اگلے سال تک حساب کر کے بتا دیں کہ انسان نے آنسو زیادہ بہائے یا دیوراوں نے قہقے کی آوازیں زیادہ سن لی ہیں۔حالات کے چکر سے سر چکرا گیا اور میں نیک کالج کو بھول گیا۔آپ بھی عجیب ہیں یاد تک نہیں دلایا۔سرکار جو بھی آڈر نکالتی ہے نیک کالج کا نام اس میں ضرور ہوتا ہے۔چاہیے الیکشن کی ہی نوٹفکشن کیوں نہ آئے نیک کالج کا ذکر ضرور ہوگا۔جس بات سے یہ کالج چرچے میں ہے وہ ہے اس کے پرنسپل اور وہ کرسی جس پر پرنسپل صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ کوئی آڈر تب تک منظر عام پر نہیں آتا جب تک اس میں یہ نہ لکھا ہو کہ اس کالج کے پرنسپل کا تبادلہ ہوگیا ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ موسم کی خرابی اور اس کالج کے پرنسپل کا تبادلہ اب قدرتی لگتا ہے اور دونوں میں انسان کا ملوث ہونا نہ ہونے کے برابر لگتا ہے۔سارے پڑھے لکھے باخبر حضرات جانتے ہیں کہ آئے روز آڈر نکلتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آئے روز ہی نیک کالج کے پرنسپل کا تبادلہ ہوتا ہے۔کوئی آڈر آج تک نہ دیکھا نہ سنا جس میں یہ خبر نہ ہو کہ فلاں صاحب کو نیک نام کالج کی کرسی بیٹھنے کے لیے عطا کی جاتی ہے۔ اس ذکر کے بغیر آڈر نہیں نکلتے۔مرزا کہتے ہیں کہ آفیسر کی پہچان ہے کہ وہ آڈر نکالتا اور حکم صادر کرتا ہے۔ورنہ کیسے پتا چلے گا کہ آفیسر ہے ۔ عام آدمی اور آفیسر میں تفاوت سینگ نہیں ہوتے ۔انسان سرکشی کرے تو اس سے نعمتیں جلد چھین لی جاتی ہیں۔میری سمجھ میں نہیں آتا یہ پروفیسر حضرات سے ایسی بھی کون سی خطائیں سرزد ہوتی ہیں کہ وہ نیک کالج میں پرنسپل کی کرسی پہ بیٹھنے کی نعمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ اس کرسی پہ کون کون نامی گرامی حضرات نہ بیٹھے۔آئے دن تبدل اور بدلاؤ کا سیلاب آتا ہے جو خس و خشاک کی طرح سب بہا کے لے جاتا ہے ۔ سیلاب تو آتا ہے لیکن مضبوط اور اونچائی پہ جو چیزیں ہوں ان کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا جیسے پہاڑ اور پروفیسر غب غب صاحب۔سیلاب کے پانی سے پہاڑ ہلتے نہیں دیکھے اور نہ ہی آئے روز کے تبادلے کا اثر پروفیسر غب غب صاحب پہ ہوتا ہے۔چٹان کی طرح دس بارہ سال سے ڈٹے ہیں۔ مجال ہے کوئی ہلا بھی سکے۔چلو اچھا ہے کوئی تو رہنما اور رہبر ہونا چاہیے ۔اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ جو کارواں بنا رہنما و رہبر کے چلتے ہیں بھٹک جاتے ہیں۔رہبر کے بغیر رہزنی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے ایسے ایسے پیسوں سے خریدنے والے تیز دار والےہتھیار دیکھے ہیں جو نہ صرف ان ہاتھوں کو چھوٹا کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ کاٹ ہی لیتے ہیں۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ زر اور نوٹ کے ہاتھ لمبے ،موٹے ،ہٹے کٹے ،تازے اور اس جیسی بہت سی خصوصیات رکھتے ہیں۔نیک کالج کے پرنسپل کا بدلنا ان موٹے ہاتھوں کا کمال ہے یا یہ ذمہ داری موسم کی خرابی پہ عاید ہوتی ہے غور کرنے اور سوچ و بچار کے بعد بھی یہ عقدہ نہیں کھلتا۔فٹبال میچ میں کھلاڑی جو حرکت بال کے ساتھ کرتا ہے وہی حرکت ایوان بالا پروفیسر حضرات کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔وہاں گول ہو جائے تو بال رک جاتی ہے یہاں آدھے پرنسپل حضرات ابھی یہ سوچ بھی نہیں پائے تھے کہ پہلے بد کالج آتا ہے یا نیک ، جاتے کہاں سے ہیں اور راستہ کون سا ہے کہ پھر سے تبادلے کی چڑیا چہچہاتی ہے۔ بعض حضرات کرسی پہ ٹھیک سے بیٹھے بھی نہیں ہوتے پیچھے سے ریفری کا آڈر آتا ہے کہ انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو کرسی پہ جی کا لگانا ٹھیک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیک کالج میں سربراہ کی کرسی اکثر خالی رہتی ہے۔ ایسی کون سی وجہ ہے کہ آئے روز تبادلے ہوتے ہیں یہ ہنوز ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کرسی پہ جو اکثر خالی رہتی ہے ، جن یا دیو کا سایہ ہو جس کو یہ پسند نہ ہو کہ کوئی اسں کرسی پہ بیٹھے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی بیھٹنا ہی نہیں چاہتا ہو اور موٹے ہاتھوں کے توسط سے خود کو بچاتا ہو۔ یہ پہیلی سلجھنے کا نام نہیں لیتی ۔ایسا کیوں ہے واللہ اعلم بالصواب۔