تحریر:ڈاکٹر سیّد احمدقادری
معصوم بچیوں پر دنیا کے بیشتر ممالک میں ہونے والے ظالمانہ پُر تشدد واقعات اور سانحات کے پیش نظر عالمی سطح پر بچیوں کو بااختیار بنانے اور ان کے مسئلوں کے تدارک کے لئے ترکی، کینیڈا اور پیرو کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 19 ؍ دسمبر 2011ء کو یہ تجویز پاس کی تھی کہ ہر سال کے 11 ؍ اکتوبر کو بین الاقوامی سطح پر ’’عالمی یوم بچیاں ‘‘ انعقاد کیا جائے گا اور 11 ؍ اکتوبر 2012 ء کو پہلا عالمی یوم بچیاں (World day of the Girl child )کا انعقاد کیا گیا ۔ لیکن افسوس کہ جن مقاصد کے حصول اور مسئلہ کے تدارک کے لئے اقوام متحدہ نے اتنا اہم فیصلہ کیا تھا ، وہ مقاصد پورا ہونا تو دور بچیوں کے ساتھ مسلسل ظالمانہ رویئے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ بچیوںکے ساتھ ہونے والی تفریق،تعلیم کی کمی ، غذا کی کمی،قانونی اختیار،طبی سہولیات،کم عمرمیں شادی اور جنسی تشدد وغیرہ جیسے مسئلوں کو اہمیت دی گئی تھی۔معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اور رویۂ کو عالمی سطح پر محسوس کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں یونیسیف کے ذریعہ نشاندہی کئے گئے بچیوں کے مسئلوں میں اس وقت میرے خیال میں سب سے اہم مسئلہ بچیوں کی آبرو ریزی کا مسئلہ ہے ۔ بچیوں کی آبروریزی کے بعد شواہد مٹانے کے لئے جس بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ بچیوں کوقتل کیا جا رہا ہے ۔یہ اس وقت کا بڑا ہی نازک اور حساس مسئلہ ہے ۔ خاص طور ہمارا ملک بھارت ان دنوں ایسے مسئلے کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ لیکن افسوس کہ حکومت کی جانب سے ایسے غیر انسانی،غیر قانونی اور غیر ذمّہ دارنہ حرکت و عمل پر ایک ٹوئیٹ پر بھی اظہار افسوس نہیں کیا جاتا ہے۔ جب کہ ملک میں ہر چہار جانب حکومت کی جانب سے ’’ بیٹی پڑھاؤ ،بیٹی بچاؤ‘‘ کے نعروں کے بڑے بڑے بورڈ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن حکومت کا عمل ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ بیٹی کی آبرو اور جان بچے گی تبھی تو وہ آگے بڑھے گی ۔اب تو بے شرمی اور بے حیائی کی انتہا یہ ہو رہی ہے کہ سیاسی رسوخ رکھنے والے اور اونچی ذات کے زانیوں اور قاتلوں کی حمایت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ۔ یاد کیجئے جموں کے کٹھوہ کا وہ دل دہلا دینے والا سانحہ ،جس میں آٹھ سال کی معصوم بے گناہ بچی آصفہ کو اغوأ کر ایک مندر کے اندر مسلسل سات دنوں تک تین درندے نما لوگ زنا بالجبر کرتے رہے اور جب وہ آخری سانس لینے لگی تو اسے پتھروں سے کچل کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔ اس انسانیت سوز سانحہ پر شرمندہ اور نادم ہونے کی بجائے ان مجرموں کی حمایت میں جلسے جلوس نکلنا شروع ہوئے تھے ۔ حکومت اتر پردیش ہاتھرس سانحہ پر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لئے مسلسل جھوٹ کا سہارا لیتی رہی اور انتہا تو یہ ہوا کہ کورٹ کے مطالبہ پر جھوٹاحلف نامہ دے کر انسانیت، قانون ، عدلیہ اور آئین کو بھی شرمسار کیا ۔جس کی بھرپور مذمت ہوئی تھی ۔ہر جانب بڑے پیمانے پر ہنگامے ہوئے ،دیش اور دنیا میں تھو تھو ہوئی اور اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انٹونیوگوٹیرس کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا کہ بھارت بیمار ذہنیت کا غلام ہے جہاں زانیوں کے بچانے کے لئے ریلی نکالی جاتی ہے ۔ زانیوں کی ایسی طرف داری اور عزّت افزائی سے ظاہر ہے ایسے مجرمین کے حوصلے بڑھنے کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے کہ ہم کچھ بھی غلط کرینگے ، حکومت ہماری حمایت میں کھڑی ہے وہ بچا لے گی ۔ اس لئے ہمارے مہذب سماج میں آبرو ریزی کے سانحات رونمأ ہوتے ہیں اور معصوم بچیوں کی دلدوز چیخوں کی بازگشت ملک کے در و دیوار سے ٹکراتی ہیں تو ان کا ذمّہ دار کون ہے اورہوگا ۔اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی سالانہ رپورٹ 2021 ء کے مطابق اس سال ملک بھر میں جنسی زیادتیوں کے 31,677 کیس درج کئے گئے جو حقیقی تعداد سے کم اس لئے ہیں کہ دیہی علاقوں میں یا بعض شہروں میں اسکول ،کالج ، ٹیوشن جانے والی بچیوں کے خلاف ہراسانی ، چھیڑ خانی یا جنسی تشدد کی خبریں بہت ہی کم درج کرائی یا کی جاتی ہیں ۔ تھامسن رائٹرس فاؤنڈیشن کے ذریعہ چند سال قبل کئے گئے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کو دنیا بھر میں لڑکیوں کے لئے سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیاتھا ،جہاں روزانہ اوستاََ 93 لڑکیوں کی عزت و آبرو لوٹی جاتی ہے ۔
ایسے المناک ،شرمناک اور دردناک منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے اس سال کے ’عالمی یوم بچیاں‘ پر اقوام متحدہ اس جانب خصوصی توجہ دے اور دنیا کی وہ تمام تنظیمیں جو انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے متحرک اور فعال ہیں ،وہ بھی ایسے مسئلوں کے تدارک کے لئے لائحہ عمل تیار کرے کہ آج کی یہی بچیاں کل کسی خاندان اور سماج کے لئے اہم کردار ادا کرینگی۔اس سال یعنی 2022 ء کاعالمی یوم بچیاں World day of the Girl Child) ) کے انعقاد کا کئی لحاظ سے اہمیت اس لئے بھی ہے کہ انعقاد کا یہ دسواںسال ہے اور اس سال کی تھیم ’’ اب ہمارا وقت ہے ،ہمارے حقوق ، ہمارا مستقبل ‘‘ "Our time is now -our rights our future ) ) تجویز کی گئی ہے ۔