از :فاروق بانڈے
3 اکتوبر 2014 کو پہلی ہی ’من کی بات‘ پروگرام کے دوران بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ کھادی کے فروغ کے لئے وہ اپنے لبا س میں کم از کم ایک جوڑا کھادی کابھی شامل کرلے۔ کھادی خریدنے پر زور دینے والی وزیر اعظم کی واضح کال کے بعد، کھادی کی فروخت میں کافی اضافہ ہوا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے ہمیشہ اور خاص کر گاندھی جینتی پر”کھادی اتسو“ کے دوران لوگوں سے ہمیشہ کھادی استعمال کرنے کی اپیل جاری رکھی۔ انہوں نے بارہا کہا ہے، ”جب ہم کھادی خریدتے ہیں، تو ہم ان لاکھوں بنکروں کی زندگیوں کو روشن کر رہے ہوتے ہیں جو دن رات محنت کرتے ہیں۔ کھادی کی مصنوعات خریدنا بنکروں کے گھروں میں دیوالی منانے کے مترادف ہے۔“ مودی نے ”قوم کے لیے کھادی، فیشن کے لیے کھادی“ کا منتر دیا ہے – یہ خیال کہ کھادی قومی فخر کی علامت اور فیشن بیان بن سکتی ہے، جو نوجوانوں میں مقبول ہو سکتی ہے۔
یہ صرف کھادی کی بات ہی نہیں ہے بلکہ ان کے ’آتم نربھر‘ کے نعرے کا بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ یہاں کے گاؤں،دیہات، عام ہنرمند ایک با مقصد اور عزت کی زندگی گزار کر نہ صرف اپنی مالی حثیت کو سنبھالے بلکہ ملک کی پیداواری صلاحیت کو فروغ دینے میں اپنا رول ادا کرے۔ اگر ہم آزادی سے پہلے کے بھارت پر نظر ڈالیں گے تو ایک طرف ہم شہروں، خاص کر بڑے شہروں میں، انگریزوں اور دیگر سرمایہ داروں کی طرف سے قائم کئے گئے چھوٹے بڑے کارخانوں کو دیکھتے ہیں جو یہاں کے وسائل کا استعمال کرکے دیگر ممالک کو فروخت کرتے تھے تو دوسری طرف گاندھی جی نے لوگوں سے گھریلو استعمال کی چیزوں کو بنانے کے لئے گاؤں کی چھوٹے گھریلو کارخانوں کو وسعت دینے پر زور دیکر یہاں کے لوگوں کو ایک راہ دیکھائی۔ ان صنعتوں کوچلانے کے لئے گاؤں سے باہر کی کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی اور بہت کم سرمایہ سے انہیں چلایا جا سکتا تھا۔گاندھی جی کو یقین تھا کہ گاؤں میں زراعت میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ان کا ماننا تھاکہ گاؤں دیہات کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے کسانوں میں چرخہ متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے بعد گاؤں میں بسنے والی 80 فیصد آبادی کی بنیادی ترقی کو پسِ پشت ڈال کر ان کی اقتصادی ترقی کے لئے گاندھی جی کی دیکھائی گئی راہ کو بھلایا گیا۔ دیہی باشندوں کی ترقی کے لئے کھادی کو مقبول بنانے، کھادی کی مصنوعات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور نوجوانوں میں کھادی کے استعمال کو فروغ دینے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلسل کوشش رہی
ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح جموں کشمیر میں بھی یہاں کے موروثی کام کاج کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔اگرچہ کہ یہاں بھی ایسے کئی ادارے ہیں جنہیں گاؤں کے لوگوں اور کسانوں کی آمدن میں اضافہ کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پلاننگ تو خوب کی جاتی ہے مگر اس پلاننگ کو بنیادی سطح پر لاگو کرنے اور پھر اس کی مناسب نگرانی(Monitoring) کے لئے کوئی بڑا اقدام نہیں کیا جارہا ہے جس وجہ سے حکومت کے بہت ہی عمدہ پروگرام مقاصد حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں۔
جموں کشمیر میں جب سے سرکاری ملازمت عنقا ہونے لگی ہے کچھ نوجوان یہاں کے کئی روایتی شعبوں میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ حال ہی میں سرینگر کے ایک نوجوان کے بارے میں ایسی ہی ایک کوشش کا ذکر سامنے آیا۔اس نوجوان نے مٹی کے چمکدار برتن بنانے کا کام شروع کیا ہے۔اگلی سوموار (24 اکتوبر) کو دیوالی ہے اور اسے دیے(چراغ) بنانے کا ایک بہت بڑا آڈر ملا ہے۔: جیسے جیسے دیوالی قریب آرہی ہے، محمد عمر کمہار، جو کشمیر میں چمکدار مٹی کے برتنوں کے ‘مرتے ہوئے’ فن کو زندہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، 15,000 مٹی کے دیے فراہم کرنے کے لیے جذبے سے کام کر رہا ہے۔27 سالہ کمار، جو سرینگر کے مضافاتی علاقے ایشبر نشاط سے کامرس سے فارغ التحصیل ہیں، کہتے ہیں کہ پرانے ہنر کو دوبارہ زندہ کرنا ایک مشکل چیلنج ہے، لیکن وہ ہار نہیں مان رہے ہیں۔دیوالی کے تہوار کے لیے ”دییے” (مٹی کے چراغ) کا ایک حالیہ آرڈر امید کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی لایا۔”مجھے ضلع کولگام کے ایک ڈیلر سے دیوالی کے لیے 15,000 چراغوں کا آرڈر ملا۔ محمد عمر نے بتایا۔ کمار نے کہا کہ اس نے آرڈر کا ایک حصہ ڈیلر کو پہنچا دیا ہے، یہ وقت کے خلاف ایک دوڑ ہے۔”تاہم، میں اس میں جلدی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک فن ہے۔ مجھے یہ یقینی بنانا ہے کہ پروڈکٹ بالکل ٹھیک ہے،“ اس نے کہا۔چمکدار مٹی کے برتن، جسے ”ڈ ل گیٹ مٹی کے برتن” کہا جاتا ہے، کشمیر کے لیے منفرد ہے۔ اصل میں، وادی میں گہرے سبز، نیلے اوربھورے رنگ میں چمکیلی ٹائلیں بنائی گئی تھیں۔ اس دستکاری کو بعد میں گلدانوں میں تقسیم کر دیا گیا جو سرخ، سبز اور نیلے رنگ کے گلیز میں بنے۔کمہار کے تازہ ترین آرڈر میں ایک ایسا عمل شامل ہے جس میں کمہار کے پہیے پر چراغوں کو شکل دینا، پھر انہیں خشک کرنے کے لیے چھوڑنا اور آخر میں آگ پر تیارکرنا شامل ہے۔وہ شہر کے حضرت بل علاقے میں اپنی دکان پر کچھ مٹی کے دیے بھی بیچتا تھا۔ کمہار نے اپنے والد اور بھائی کو بھی تجارت میں لگا رکھا ہے۔27 سالہ نوجوان نے کہا کہ یہ آڈرخاندان کے لیے ایک اچھی علامت ہے، جو مٹی کے برتنوں کے فن میں طور پر شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ کبھی شہر میں 500 سے زائد خاندان اس کام میں مصروف تھے، جو اب کم ہو کر 50 کے قریب رہ گئے ہیں۔محمد عمر نے کہا، ”میں مزید خاندانوں کو شامل کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں اور جب کہ میں ان میں سے چھ کو واپس لانے میں کامیاب ہو گیا ہوں، یہ ایک مشکل چیلنج ہے،” کمہار نے کہا، حکومتی سطح پر تعاون ہونا چاہیے۔محمد عمرکمہار پچھلے سال اس وقت سرخیوں میں آئے جب انہوں نے کشمیر میں چمکدار مٹی کے برتنوں کے ” دفن ہوتے” فن کو ایک عمر رسیدہ کاریگرسے سیکھنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرنے کا ذمہ لیا۔اس نے نہ صرف اپنے خاندان کو اس ہنر میں شامل کیا ہے، بلکہ وہ چند نوجوانوں کو یہ ہنر سکھاتا ہے تاکہ اس ہنر کو مبہم ہونے سے بچایا جا سکے۔ایک زمانے میں مشہور اور تلاش کیے جانے والے، چمکدار مٹی کے برتن، کشمیر میں آرٹ کی بہت سی شکلوں کی طرح، آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں کیونکہ وادی میں نئی نسل میں سے بہت سے لوگ ‘اپنے ہاتھ گندے’ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔کمہار کا خاندان اب کئی سالوں سے مٹی کے برتنوں کو بنانے میں مصروف ہے، لیکن اس نے پچھلے سال چمکدار مٹی کے برتنوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ایک مختلف علاقے میں جانے کی ذمہ داری قبول کی، یہ فن جدیدیت کی وجہ سے کھو گیا تھا۔وہ آرائشی اشیاء سمیت مختلف اشیاء تیار کرتا ہے اور چمکدار رنگ خود تیار کرتا ہے۔ وہ اپنے ہنر میں ویسٹ گلاس، استعمال شدہ بیٹری سیلز میں لیڈ اور پاؤڈرڈ ویسٹ کاپر میٹل استعمال کرتا ہے۔کمار نے کہا کہ چمکدار مٹی کے برتنوں کی مانگ اتنی زیادہ تھی کہ اسے پورا کرنا مشکل ہو رہا تھا۔” طلب(ڈیمانڈ) ہے، بازار ہے، لیکن میں اکیلے اسے پورا نہیں کر سکتا،” انہوں نے کہا۔کمار نے کہا کہ وہ اس فن کو اس طرح بحال کرنا چاہتے ہیں جیسے یہ پرانے زمانے میں تھا۔کمہار بھی اپنے لوگوں سے وہی چاہتا ہے جس کی اپیل وزیر اعظم نریندر مودی کر رہے ہیں۔”میرا مقصد یہ ہے کہ وادی کشمیر کے ہر گھر میں کم از کم ایک مٹی کے برتن کا سامان ہو”، کمہار نے کہا۔