• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

مسلمانوں کی سیاسی حکمتِ عملی کیا ہو؟

Online Editor by Online Editor
2023-01-17
in کالم
A A
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:اسد مرزا

اگر ہم آزادی کے بعد سے اب تک ، یعنی کہ گزشتہ پچھتر برسوں کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی سوچ اور سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہم پر افشاں ہوگی کہ ان پچھتر برسوں کے دوران ہندوستانی مسلمان اپنی کوئی بھی سیاسی جماعت قائم کرنے یا دوسری بڑی سیاسی جماعتوں میں اپنی سوچ شامل کرانے میں بالکل ناکام رہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سن سینتالیس کے بعد ہمارے ملی اکابرین جو کہ سیاسی اور ملی دونوں سطح پر ہماری رہنمائی کررہے تھے انھوں نے سیاست سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے یہ کہ سن سینتالیس کے اگلے پندرہ برسوں میں ہمارے جو قدآور سیاسی رہنما دیگر قومی سطح کی سیاسی جماعتوں میں شامل تھے، وہ یکے بعد دیگرے ہمارا ساتھ چھوڑتے چلے گئے اور اس طرح ہندوستانی مسلم قوم سیاسی اور ملی دونوں طرح کی قیادت سے محروم ہوتی چلی گئی۔
اس درمیان اُن لوگوں جو کہ سیاسی طور پر کوتاہ قدتھے انھوں نے قوم کی سیاسی رہنمائی کی ذمہ داری اٹھالی، لیکن درحقیقت وہ قوم کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے نظر آئے۔ اس طرح نہ تو وہ قوم کو کوئی سیاسی راہ دکھا سکے اور نہ ہی عملی طور پر اس کی ترقی اور بہبود کے لیے کوئی نیا راستہ دکھانے یا حکمت عملی بنانے میں کامیاب ہوسکے۔ اس پورے دور میں ہندوستانی مسلمان صرف جذباتی باتوں اور نعروں سے مرعوب ہوتا رہا اور ان نام نہاد سیاسی رہنماؤں کے پیچھے چلتا رہا۔
اگر ہم دیکھیں تو اس درمیان ہندوستانی مسلمانوں نے معاشی اور تعلیمی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ کاروباری سطح پر اپنا وہ مقام کھوتے چلے گئے جو کہ ان کو پہلے حاصل تھا۔ مزید برآں گزشتہ پندرہ سالوں میں یہ سیاسی رہنما ملک کے بدلتے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے تقریباً حاشیے پر پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد دائیں بازو کی تنظیموں نے جس طرح کی سیاست ملک میں شروع کی اس میں ان کی پوزیشن بالکل صفر کے برابر ہوگئی۔
دراصل ہمارے نام نہاد سیاسی قائد جن کی بنیادی طور پر آج کے موجودہ دور میں کوئی بھی سیاسی حیثیت نہیں رہی ہے کیونکہ  ان میں سے بیشتر کو ان کے اور قوم کے اصل مخالف نے اپنی چالاکی ، چالوں اور حکمت عملیوں کے ذریعے مکمل طور پر اگر صفحۂ ہستی سے مٹایا نہیں ہے تو ان کا رول بالکل ختم کردیا ہے۔  اس کے ساتھ ہی ملک کی ملی قیادت بھی جو کہ قوم کو ایک متحد قوم بنانے میں بااثر کردار ادا کرسکتی ہے، وہ بھی ایسا کوئی عمل یا  دعوت دینے سے قاصر نظر آرہی ہے۔جبکہ ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے بنیادی اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور ملک میں نفرت کی موجودہ فضا، اور مسلم مخالف ماحول کو ختم کرنے کے لیے کوئی بااثر منصوبہ بنائیں۔اگر آپ کا دشمن آپ کو ایک متحد قوم دیکھتا ہے اور اس میں شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی کی تفریق نہیں کرتا ہے تو ہمارے ملی قائدین اور اکابرین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپسی تفرقوں کو بھلا کر ایک متحدہ ہندوستانی مسلم قوم کو تشکیل دینے اور اسے آگے لے کر چلنے کے لیے اپنی ذمہ داری ایک نئی تحریک شروع کرکے ادا کریں، جس کے ذریعے مسلم قوم کے لیے ایک مثبت اور جامع لائحہ عمل بھی تیار کیا جاسکے۔
ہندوستان میں مسلم قوم اپنے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اپنے مفکرین اور ماہرین تعلیم کے تعاون سے یہ چاہتی ہے کہ وہ مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی اور ایکشن پلان بنانے کے قابل ہوں، جس پر قوم گامزن ہوسکے۔مسلمقوم کی بیماری اس بات میں پنہاں ہے کہ بذاتِ خود قوم اور اس کے رہنما دونوں ایک فعال نقطۂ نظر کے مالک نہیں ہیں۔ وہ صرف جذباتی ردِ عمل ظاہر کرنے اور باتیں بنانے میں یقین رکھتے ہیں نا کہ عملی اقدمات سے بھرپور کوئی منصوبہ بنانے کے لیے ۔
قوم کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے، اس کے  لیڈران قوم کو کوئی اعلیٰ درجہ کا پلیٹ فارم مہیا کرانے میں  کامیاب نہیں ہوسکے، یعنی کہ سیاسی، مذہبی، سماجی، تعلیمی اور مفکرین و اکابرین، کیونکہ بنیادی طور پر ان میں سے ہر ایک اپنے ذاتی مفادات کو آگے بڑھانے پر یقین رکھتا ہے، نہ کہ قوم کے مفادات کو۔اور ایک بار جب وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں، تو وہ شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت میں چھپا لیتیہیں۔ اس قوم کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے، کہ جب اس کے ملی رہنما اور نوجوان جیلوں میں بند ہیں،پھر بھی وہ ہر تہوار اور شادی بیاہ کی تقریبات کو اپنے لیڈروں یا نوجوانوں کی پرواہ کیے بغیر مناتی رہتی ہے۔
دوسری جانب، ماضی کی طرح چند ایک  نام نہاد مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے مختلف گروپوں نے حکومت کو متاثر کرنے کے  واضح مقصد کے ساتھ،چھوٹی چھوٹی اور نہ معلوم تنظیمیں یا ’تھنک ٹینکس‘ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ لیکن ان کا خلوص بھی شک کے گھیرے میں ہے۔دراصل یہ گروپس اپنے چھوٹے مفادات کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ مسلم قوم کی نمائندگی کررہے ہیں،جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، تو آئیے اپنا وقت اور توانائی بچائیں اور اس کے بجائے قوم کو درپیش مختلف مسائل کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے اس پر توجہ مرکوز کریں۔
سب سے پہلے، ہمارے سیاسی لیڈروں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر وہ ہر ہندوستانی مسلمان تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو انھیں قوم کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ ان کے پاس ملک کے کونے کونے تک پہنچنے کے ذرائع کے علاوہ وسیع تر اپیل اور قابل قبول بنیادیں موجود ہیں۔
دوسرا، اگلا قدم اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اگر چہ ایسی کوئی سیاسی جماعتیں نظر نہیں آتی ہیں جنہیں ہم مسلم قوم  کے مفادات کا محافظ قرار دے سکیں۔ پھر بھی ہمیں ان سیاسی عناصر کو نشاندہ کرکے ان کے ساتھ جڑنا ہوگا جوواقعتاً مسلمانوں کے ہمدرد ہیں اور انہیں ان کے حقوق دینا چاہتے ہیں۔
مزید برآں، ان سیاسی عناصر کے ساتھ تعلقات کو یقینی بنانا چاہیے جن کے ذریعہ ہم ہر سطح پر انتخابات کی شفافیت اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے لیے ہمیں ہر گاؤں ، تحصیل، ضلع سطح پر پولیٹیکل بوتھ مینیجرزاور کوآرڈینیٹروں کی ایک ٹیم بناکر تعینات کرنا ہوگی، جو اس بات کو یقینی بنانے کے قابل ہوسکیں کہ ملک میں کوئی بھی آئندہ انتخاب منصفانہ طور پر کرایا جاسکے ، خاص طور پر اگلے سال ہونے والے عام انتخابات۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج بھی  ملک کے 67% رائے دہندگان  بی جے پی کے مخالف ہیں۔ہمیں ایسے عناصر کے ساتھ اپنی سیاسی لڑائی کو آگے بڑھانا چاہیے۔
تیسرا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ مسلم قوم کو مختلف فلاحی اسکیموں کا فائدہ ملے، تو یہ سمجھداری ہوگی کہ سول سوسائٹی تنظیموں کا ایک قومی کنفیڈریشن تشکیل دیا جائے،دراصل مسلم سول سوسائٹی تنظیموں کی تعداد پورے ملک میں ہزاروں میں ہے۔ اگر ہم ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر لے آنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کے ذریعے وسائل اور پیسے کا استعمال بہتر طور پر کیا جاسکے گا۔ اور امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اس کے ذریعے قوم کی ایک بڑی تعداد کو غربت سے باہر نکالا جاسکے گا۔
چوتھا، اگر ہمیں اپنی ان سماجی اور غیر سرکاری تنظیموں کو افادیت آمیز بنانا ہے تو اس کا ایک ذریعہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی زکاۃ کے کچھ حصے کو ان تنظیموں کو کام کرنے کے لیے مہیا کرائیں، جس سے کہ وہ ہمارے تعلیمی شعبے، بنیادی ڈھانچے کی سہولیات مہیا کرانے اور راحت رسانی کے کاموں میں بغیر کسی مداخلت کے پوری یکسوئی کے ساتھ قوم کے لیے شروع کیے گئے فلاحی منصو بوں کو عملی جامہ پہناسکیں۔
آخر میں ہمیں ملک کے آئینی اور سیاسی نظام  سے امید نہیں ہارنی چاہیے۔ ہمیں مسلم معاشرے کو ہر سطح پر بدلنے کی کوشش بھی کرتی رہنی چاہیے، خواہ وہ تعلیمی ہو، پیشہ ورانہ ہو، سیاسی ہو یا مذہبی ہو اور اس راستے پر چلنا ہوگا، جو ماضی میں ہمارے اکابرین نے ہمیں دکھایا تھا۔اور اس سمت میں ہمارے ملی رہنما ایک کلیدی اور جامع کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

خشونت سنگھ : کامیاب زندگی کے راز

Next Post

خانہ بدوش طبقہ بنیادی حقوق سے محروم

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post

خانہ بدوش طبقہ بنیادی حقوق سے محروم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan