تحریر:شاہ نواز
جموں وکشمیر کا ضلع ریاسی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔حال ہی میں لیتھیم کے خزانے کی خبروں سے یہ ضلع ایک بار پھر عالمی سطح پر سرخیوں میں رہا۔یہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں شری ماتا ویشنو دیوی کٹرہ میں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی خصوصی توجہ بھی اس ضلع میں رہتی ہے کیونکہ ایک جانب یہاں لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کی آمد و رفت اور دوسرا یہاں لیتھیم کا خزانہ سرخیوں میں ہے۔ اس کے باوجودضلع کے کئی علاقہ جات آج بھی ایسے ہیں جہاں انتظامیہ کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک جانب حکومت نے صحت کے شعبہ میں کافی ترقی کر لی ہے،آیوشمان بھارت جیسی اسکیمیں لائیں، کرونا جیسی علامی وبائی مرض کی دوا بنا ڈالی تو دوسری جانب ضلع ریاسی کے گلاب گڑھ میں واقع دیول گاؤں کے لوگ آج بھی طبی سہولیات کی کمی کے باعث مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس گاؤں میں پہلی مرتبہ ایک ہلتھ سینٹر 1953ءمیں قائم ہوا تھا۔اس وقت اس علاقہ میں کم از کم 15ہزار لوگوں کی آبادی کے لئے یہ واحد طبی سینٹر تھا۔ 1953سے 1980 تک اس سنٹر پرایک میڈ یکل افسر کی تعناتی ہوا کرتی تھی۔ لیکن 1980 سے میڈیکل افسر کی کرسی جو خالی ہوئی وہ آج تک خالی ہی ہے۔ 2005 سے قبل دیول میں پی ایچ سی قائم کیا گیا اوراسی سال اس کی عمارت کے لئے تعمیری کام بھی شروع کیا گیا۔ لیکن 18 برس گزر جانے کے بعد بھی نہ توپی ایچ سی دیول کی عمارت کا کام مکمل ہو سکا اور نہ ہی پی ایچ سی کے لئے کوئی عملہ ہی دستیاب ہوا۔ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ علاقہ گلاب گڑھ کے لئے پی ایچ سی دیول ایک لالی پاپ کی مانند ہے کیونکہ یہ طبی مرکز برائے نام ہے اور اس کا سارا کام کاج کاغذوں تک ہی محدود ہے۔
اس حوالے سے دیول کے رہائشی اور سابق نائب تحصیلدار حاجی عبدالرشید نے بتایا کہ پی ایچ سی دیول کی تعمیر 2005 میں شروع ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے 18 سال کا طویل وقت گزر گیا اور ابھی تک اس کی عمارت مکمل نہ ہو پائی اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر یہاں دستیاب ہوسکا۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت بلاک گلاب گڑھ کی کم وبیش چار پنچایتوں کی 15ہزار لوگوں کی آبادی طبی سہولیات کے فقدان سے پریشان ہے۔ حاجی عبدالرشید نے بتایا کہ اس وقت تک مزکورہ علاقے میں طبی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے کئی انسانی زندگیاں موت کے منہ میں چلی گئیں جن میں زیادہ تر حاملہ خواتین تھیں کیونکہ کہ کسی مریض کو طبی مرکز تک پہنچانے کے لیے کافی وقت لگتا ہے اور تب تک مریض اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسی حوالے سے پنچایت دیول(اے) کے سرپنچ قمر دین نے بتایا کہ جس عمارت میں طبی سہولیات کی چیزیں، ادویات اور ڈاکٹر ہونے چاہیے تھے وہ کْتوں اور مویشیوں کی آرام گاہ بنی ہوئی ہے۔ سرپنچ موصوف نے بتایا کہ 18 برس کی طویل مْدت کے بعد بھی اگر طبی مرکز کی عمارت جانوروں کی آرام گاہ بنی ہوئی ہے تو سمجھ سکتے ہیں کہ مزکورہ علاقے میں لوگوں کوکس طرح کی سہولیات میسر ہوتی ہونگی؟ سرپنچ موصوف نے بتایا کہ انہوں نے 2018 میں سرپنچ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ضلع ترقیاتی کمشنر ریاسی اور ایس ایم مہور کے نوٹس میں کئی بار پی ایچ سی دیول کو لایا اور انہیں تفصیل سے آگاہ کیا۔ لیکن اس بارے میں ابھی تک انتظامیہ کی طرف سے کوئی کام یا انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ مقامی نوجوان جاوید احمد نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری آنکھیں انتظار کر تے کرتے تھک گئی کہ پی ایچ سی دیول کی تعمیر مکمل ہوگی اور عوام کو فائدہ مل سکے گا لیکن انتظار18 برس سے بھی طویل ہونے جا رہا ہے کیونکہ 18برس گزر جانے کے بعد بھی پی ایچ سی دیول تشنہ تکمیل ہے۔
واضح رہے کہ پی ایچ سی دیول کی تعمیر کا کام محکمہ تعمیرات عامہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس حوالے سے جب ایکس ای این، پی ڈبلیو ڈی مہور راجیش شرما سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ سیٹیٹ پریکوائرمنٹ اسکیم میں اس عمارت کی رقومات تھی لیکن اب وہ اسکیم بند ہو چکی ہے اور رقومات بھی ختم ہو گئی ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے پی ایچ سی دیول کے بارے میں مزید رقومات واگزار کرنے کے لئے حکام بالا کو خط لکھا ہے اور دوبارہ بھی اس معاملے کو اٹھایا جائے گا۔ چند ہفتے قبل ایس ڈی ایم مہور مظاہر حسین شاہ نے دیول علاقہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پی ایچ سی دیول کا بھی جائزہ لیا اور مقامی معزز لوگوں سے بھی بات کی تھی۔ اسی ضمن میں مختصر سے الفاظ میں انہوں نے بتایا کہ متعلقہ محکمہ اور پی دبلیو ڈی سے بات کی گئی ہے اور انہیں ہدایت دی گئی ہے کہ پی ایچ سی دیول کو مکمل تعمیر کرنے کے لئے اقدامات کئے جایں۔بہرحال سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر 2005سے اب تک پی ایچ ای دیول کی عمارت نا مکمل کیوں ہے؟ایسا کیا مسئلہ پیش آ گیا کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود مقامی عوام کو صحت کے شعبے میں اتنی مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے؟ آخر کون ہے اس کا ذمہ دار؟ (چرخہ فیچرس)
