تحریر:عجاز بابا
رجائیت کی سیاست مختلف لباسوں میں محیط عوام کی حقیقی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے، شفاف احتساب کے عزم کو بڑھاتی ہے، تاثیر اور بالآخر یہ عوامی مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور عام بھلائی کو فروغ دیتی ہے، سیاسی شرکت انتخابی جمہوریت کے لیے اہم ہے۔
چناؤ نایدکھئے میں محض نمائندے کے انتخاب کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ جذبات، لچک اور تعمیر نو اور جمہوری کلچر کی بحالی کے بارے میں ہے جو جمہوری جوہر کو فروغ دیتا ہے اور ووٹ کے سیاسی حق کو بڑھاتا ہے۔پولیٹیکل سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے انتخابی عمل کا گہرائی سے اور تنقیدی مشاہدہ کیا، اس تجربے سے میں نے جو کچھ نقش کیا وہ یہ ہے کہ نائدکھائی کے لوگوں کا جمہوریت پر گہرا اعتماد ہے، یہاں کے نمائندے لوگوں سے جڑنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔لوگوں کی سیاسی نفسیات مکمل طور پر پختہ ہو چکی ہے جذبات کا کردار زیر غور رہتا ہے تاہم جس کو بھی لوگ سپورٹ کرتے ہیں، دل سے سپورٹ کرتے ہیں اور اس نے یہ ذائقہ دیا کہ یہ شخص جو کسی خاص امیدوار کی حمایت کر رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود الیکشن لڑ رہا ہے۔جمہوریت اس وقت بہترین کام کرتی ہے جب زیادہ سے زیادہ شہری حصہ لیتے ہیں اور یہاں کے لوگ ذاتی فائدے کے علاوہ شہری فخر کے طور پر ووٹ دینے کے حق کو قائل کرتے ہیں، جیسے ہی چناو قریب آتا ہے لوگوں کا سیاسی نبض برق رفتار میں بلند ہوتا جاتا ہے.
یہاں کے الیکشن کسی مقدس تہوار سے کم نہیں مجھے آج بھی 2014 کا الیکشن یاد ہے، حالانکہ میں اس وقت صرف 13 سال کا تھا، میں نے ووٹر میں شمولیت اور پرو ایکٹیوشن کا ایک رنگا رنگ سلسلہ دیکھا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہر ووٹر خود الیکشن لڑ رہا تھا۔حالانکہ کشمیر نے مختلف لہریں دیکھی ہیں لیکن سیاسی شرکت کے مختلف رنگوں کو مستقل طور پر تسلیم کرنے والے نایدکھئے بلاک کے عوام جذباتی, سیاسی ,ترقیاتی اور سماجی طور پر انتخابی سیاست کے لیے ہمیشہ کھڑے رہے ہیں ۔
غلام محمد شاہ سابقہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اکثر نایدکھئے کے لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے آیا کرتے تھے یہاں کے لوگوں سے جڑتے ہوئے وہ بہت لطف اندوز ہو رہے تھے یہ صرف اس لیے ہے کہ نایدکھائے کے لوگ ہمیشہ سیاسی طور پر بالغ رہے ہیں۔حال ہی میں ایک سینئر شہری سے بات کرتے ہوئے مجھے معلومات میں اضافہ ہوا کہ سابق وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ صاحب نے ایک بار عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرینگر کے شالٹینگ علاقے سے شمالی کشمیر لے کر اگر آپ کو وزیر اعلیٰ دیکھنا ہو تو آپ نائدکھائی کے ایک مشہور سیاسی کارکن کو دیکھنا
طارق حمید قرا صاحب ایک اعلی ترین سیاست دان کا تعلق وسطی کشمیر کے لوگوں سے زیادہ نایدکھئے کے لوگوں سے تھا اگر چہ وہ 2014 کے دوران سرینگر پارلیمانی نشست کے لیے الیکشن لڑ رہے تھے
سوناوری کے معروف سیاست دان غلام محی الدین کچھے نے اپنے اکثر سیاسی خطاب نایدکھے میں کیے ہیں علاوہ اذیں ہم نے 2 اعلیٰ سیاست دان اور کئی نئے نوجوانوں نمائندے تیار کیے ہیں۔
جب سے حد بندی کے عمل سے نائدکھائی کو بانڈی پورہ حلقہ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے جو کہ نائدکھائی سے 40 کلومیٹر دور ہے سیاسی نبض اچانک بدل گئی ہے,ایک پرجوش ووٹر ہونے کے ناطے میں کبھی کبھی اپنے بلاک کو دیکھ کر روتا ہوں اور میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر الگ تھلگ محسوس کر رہا ہوں کیونکہ میرا آبائی حلقہ میرے بلاک سے صرف 6 کلومیٹر دور ہے۔ میں نے سیاسی شرکت کے شواہد دیکھے ہیں تقابلی طور پر ایسا لگتا ہے کہ یہاں سیاست دم توڑ چکی ہے جب میں ماضی کی تاریخ اور عوام کی موجودہ سیاسی نبض کا موازنہ کرتا ہوں تو مجھے واقعی رونا آتا ہیں ۔اگرچہ نایدکھے کے لوگوں میں الیکٹرول سیاست کے بارے میں بہت زیادہ بیداری ہے لیکن حد بندی کے بعد سے یہاں سیاسی نبض مکمل طور پر بدل چکی ہےاور سیاسی نفسیات بھی مکمل تبدیل ہوگئی.
میں پورے کشمیر میں حلقوں کی حد بندیوں کی ازسرنو وضاحت کرنے کے لیے حد بندی پینل کا بہت احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ سچے ماہرین اور جمہورے فہم والے اور مضبوط سیاسی شعور رکھتے ہیں تاہم ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حد بندی کے عمل میں جو کہ 2028-29 میں ہونے کا امکان ہے، نایدکھے بلاک کو سوناواری کے ساتھ دوبارہ ترتیب دیا جائے تاکہ ہم ماضی کی طرح اپنی حقیقی جمہوری اخلاقیات, پرجوش سیاسی فہم اور سیاسی شراکت داری کو ازسر نو تشکیل دیںنگے
مصنف نیشنل ایوارڈ یافتہ ہیں فی الحال کشمیر یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس میں پوسٹ گریجویشن کر رہے ہیں
