از:ش ،م ،احمد
میں آئینہ ہوں دکھاتا ہوں داغ چہرے کے
جسے خراب لگے وہ سامنے سے ہٹ جائے
جب یہ سطور قلم بند ہورہی ہیں وادی ٔ کشمیر میں پہلے مرحلے کی پولنگ میں اب صرف دو دن کا وقفہ حائل ہے ۔ پہلے کے مقابلے میں اس بار لوگوں میں اسمبلی الیکشن کے تعلق سے کافی جوش وخروش پایا جاتا ہے ۔ شاید عوام الناس میں یہ شعور آگیا ہے کہ ووٹ کی قدروقیمت کیا ہے ‘ ووٹر کس طرح حق رائے دہی کا استعمال کرکے اپنی تقدیر آپ بنانے کامجاز ہوتا ہے۔ اس لئے اب کی بار لوگ اپنے حق ِرائے دہی کو کافی اہمیت دے رہےہیں ۔ بلاشبہ الیکشن مہم میں تادیر کوئی گہماگہمی کی جگہ سستی رہی مگر انجینئر رشید کی تہاڑ جیل سے رہائی سے شہ سرخیوں کی حرارت بڑھ گئی ۔ میری کوتاہ بین نگاہ میں تادم تحریر کسی خاص پارٹی یا کسی مخصوص آزاد اُمیدوار کے حق میں کوئی انتخابی لہر چل رہی ہو‘ ایسا تاثر انتخابی میدان کے مناظر سے اخذ نہیںہو رہا۔ البتہ مبصرین کا قیاس ہے کہ عام ووٹروں کا میلان انڈیا الائنس کی طرف ہے۔ پھر بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ عام ووٹر پولنگ بُوتھ کے اندر کس من پسند جماعت کے پلڑے میں اپنے اعتماد کا وزن ڈال دے گا ‘ کس آزاد اُمیدوار کے سر اپنی بے محابہ حمایت کا سہرا باندھ لے گا ۔ یہ ایک سربستہ راز ہے جسے ۸؍ اکتوبر کو ای وی ایم مشینیں کچھ ہی گھنٹوں کے اندر نتائج کی صورت میں اُگل دیں گی ۔ فی الحال ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں سیاست کی ہانڈی میں بہت سارے انتخابی منشوروں کے کاغذی خواب پک رہے ہیں ‘ بہت سارے حسین وعدوں کے خیالی جنت بن رہے ہیں‘ بہت سارےنعروں کا بے ہنگم شور سیاسی رسوئی میں بھاپ بن کر اِدھر اُدھر پھیل رہاہے۔ بہت تعجب وتاسف کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ کئی ایک لیڈران کے پاس عوام کو دینےکے لئے کوئی اچھا پروگرام یا نقشِ راہ نہیں‘ اس لئے تلخ نوائیوں ‘ طعنہ بازیوں ‘ الزام تراشیوں ‘ دشنام طرازیوں ‘ لچر باتوں اورناشائستہ تقریروں کا چُورن انتخابی رسوئی میں لائے ہیں جوپکوان کا بے لطف ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔ بنا بریں تجزیہ کار منقسم منڈیٹ اور معلق ا سمبلی کی پیش گوئی اور بعضے انوکھے چمتکاروں کی قصہ گوئیاں کر رہے ہیں ۔
ہماری سیاسی قیادت کوئی کرہ ٔ ارض سے کٹی ہوئی مخلوق نہیں کہ نہ جانتی ہو کہ موجودہ حالات میں اُن پر قوم کی بہبود وبھلائی کے لئے کیا کیا فرائض عائد ہوتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہاں گزشتہ پانچ سال سے مسلسل منتخبہ حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ایک گھمبیر سیاسی خلا قائم ودائم رہا ۔ وہ مانتے ہیں کہ اس خلا میں زمینی حقیقتوں سےنابلد افسر شاہی کا راج تاج رہا جس سے عوام کا کوئی بھلا ہوا ‘ نہ حالات کے منہ زور گھوڑے کی لگام کسی کی پکڑ میں آئی۔ ہمارے ان نبض شناس سیاسی لیڈروں بشمول چاروں سابق وزرائے اعلیٰ آپ اور ہم سے زیادہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ پچھلے پانچ برس سے غیر محدودطاقت سے لیس حالات کاتیزگام گھوڑا بلاروک ٹوک اپنی من مانیاں کرتارہا‘عام آدمی خود کو بے دست و پا دیکھتارہا ‘ عدم شنوائی کے تیر سہتے ہوئے لوگ سیاسی ا ور معاشی طور حاشیئے پر دھکیلے جاتے رہے‘ اپنے دل کی آواز خوف کے لاکھ پردوں میں چھپانےپر لوگ کس کس عنوان مجبور ہوتے رہے۔ یہ ساری رام کہانی سیاسی قائدین سمیت
عوام پر دن کے اُجالے کی طرح عیاں وبیاںہے ۔ اسمبلی الیکشن نے عوام میں یہ ایک اُمید جگائی کہ اب کوئی اپنا ہمدرد اور ہم زبان عوامی نمائندہ بن کرایوان میں موجودہوگا جو ان کی بپتا سن لے گا‘ اُن کے دُکھ درد بانٹے کا حوصلہ دکھائے گا ‘ اُن کے مسائل کا ازالہ کرے گا ‘ اُنہیں علی الخصوص بےروزگاری‘ مہنگائی ‘ سماجی نابرابری اور اخلاقی
مفاسد کے تھپیڑوں سے نجات دلائےگا‘ مگر بصد افسوس یہ بات ہم جموں کشمیر کی بڑی سیاسی پارٹیوں اور اُن کے بلند قامت سیاسی قائدین کے بارے میں نہیںکہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی الیکشن کے حوالے سے عوام کی اس صحت مندسوچ سے کوئی ہم آہنگی رکھتے ہیں ۔ نہیں قطعاً نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو اُن کے درمیان ا س وقت اتحاد واتفاق کی مشعل فروزاں ہوتی اور اُن کی تمام تر دلچسپیوں اور کدوکاوش کی تان اپنے سیاسی مخالفین اور انتخابی رقیبوںکو نیچا دکھا کر گدی نشین ہونے پر نہ ٹوٹتی ‘وہ اپنی ذاتی ترجیحات کے حصار سے باہرآ کر بے لوث عوامی خدمت کے لئے اتحاد کی رسی کو تھامنے سے گریزاں نہ ہوتے۔ شاید قدرت کو ہمارے ان اونچے لیڈروں کے سیاسی فہم وتدبر کی آزمائش کے علاوہ عوامی خدمت کے زبانی کلامی دعوؤں کی قلعی کھولنا مطلوب تھا تاکہ دنیا سر کی آنکھوں سے دیکھ کر خود فیصلہ کرے کہ یہاں کی بڑی پارٹیاںبڑی سوچ اور کشادہ دلی کی مالک ہیں یانہیں۔
شاید ہی کوئی اس منہ بولتی حقیقت سےا نکار کرسکتاہے کہ تاریخ کےموجودہ نازک موڑ پر کشمیر کے بڑی بڑی سیاسی ہستیاں اسمبلی الیکشن کو جموں کشمیر عوام کے جمہوری حقوق کی پاسداری اور کھوئے ہوئے سیاسی وقار کی بازیابی سے زیادہ اپنے ہوس ِ اقتدار کی تشفی کا سامان بنائے ہوئے ہیں ‘ یہ لوگ ووٹنگ کو صرف اپنی سیاسی دوکانیں چمکانےکا گورکھ دھندا سمجھ کر آگے بڑھ رہے ہیں‘ ایسے میں قوم کی ڈوبتی نیا کو منجدھار سے نکا ل باہر کرنے میں اُن سے کو ئی کارآمد حکمت عملی وضع ہونا پتھروں میں زعفران کے پھول ڈھونڈنے کے برابرہوگا۔ میری دانست میں انتخابات میں ان کی کارکردگی جیسی بھی رہے مگر کم ازکم قدرت کے کڑے امتحان میں بڑی جماعتوں کے بڑے قائدین مکمل طور فیل ہو رہے ہیں ۔ اُن سے گپکار سیاسی اتحاد کے ننھے پودے کی آبیاری کا حق بھی ادا نہ ہوا‘ انہیں پری پولنگ انتخابی اتحادسے کشمیریوں کو بانت بانت کی بولیوں اور پرانت پرانت کی ٹولیوں میں بٹنے کی بجائے ایک ہی مشترکہ منزل کی طرف رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے کی توفیق بھی نہ ملی۔
جموںکشمیر کے تمام بہی خواہوں کا ماننا ہے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کے پس منظر میں جموںکشمیر کے مختلف ا لخیال سیاسی قائدین کو چاہیے تھا کہ اسمبلی الیکشن کواپنی زخمی ا نا ؤں ‘ شخصیاتی ٹکراؤں اور جماعتی عصبیتوں کی نذر نہ کرتے بلکہ زخم زخم عوام کے کامیاب مستقبل کی پلاننگ
کر نے کے لئے ایک دوسرے کی جانب مخلصانہ تعاون ا وراعتماد کا ہاتھ بڑھاتے۔ ان کے لئے لداخیوں کے دل کی دھڑکن بنے ماحولیات بچاؤ کے داعی صونم وانگچک کی مثال ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے جنہوں نے لیہہ کی ایل اے بی اور کرگل کی کرگل
ڈیموکریٹک الائنس( کے ڈی اے ) کو ایک ہی پلیٹ فارم لاکر اورخطے کے لوگوں کو متحدہ آواز اور متفقہ موقف پر مجتمع کیا اور مرکز سے آئین ہند کے شیڈول ۶ کے تحت خطے کو اسپیشل درجہ دئے جانے کی معقول مانگ کی اور اپنا یہ برحق مطالبہ( جس کا مرکزی حکومت نے لداخیوں کو ہمارے ریاستی درجہ کی بحالی جیسے وعدے کی مانند ا آشواسن دیا تھا ) منوانے کے لئے کئی دن تک لہیہ کی کڑاکے کی سردیوں میں پُر امن بھوک ہڑتال جاری رکھی۔ کیا اس سے انسپائریشن لیتے ہوئے ہمارے بڑے قائدین ول اور سر جوڑ کر لوگوں کی عمومی بھلائی کے لئے رواں الیکشن کے لئے ایک ڈھیلا ڈھالا ہی سہی کوئی قابل ِ عمل کم ازکم مشترکہ پروگرام طے کرنےمیں جست نہیں لگا سکتے تھے ؟کیا لوگوں کو ایک متفقہ یک نکاتی نصب العین دےکرخطے کی عزت وآبرو کی رکھوالی کا بیڑا اُن سے اُٹھایا نہ جاسکتا تھا؟ آخرلیڈرانِ کرام کے لئے عوام سے ایک ہی سُرتال میں یہ کہہ کر ووٹ مانگنے میں کیا چیز مانع ہوئی کہ لوگو! تم ہمیں ووٹ دو‘ہم تمہارے دبے کچلے جذبات اور روز مرہ مسائل کو اسمبلی میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملاکر بخوبی اُجاگر کرنے کا عہد وپیمان دیتے ہیں ‘ ہم تمہیں بے روزگاری‘ مہنگائی‘ عدم شنوائی اور بے توقیری کی قعر مذلت سے نکال باہر کرنے کا قول وقرار کر تے ہیں۔کیا یہ ضروری تھا کہ اس بار بھی انتخابی عمل کو محض کسی ایک سیاسی شخصیت کووزیراعلیٰ کی مسند پر بٹھانےاور کابینہ کی خالی پڑی کرسیوں کو بھرنے کی روایت کے اعادے تک محدود رکھنا مناسب تھا؟ خیر اب جوہوا سو ہو ا۔ اہل ِوطن کی آزمودہ کار سیاسی قیادت اب بھی مابعد انتخابات سیاسی اتحاد ترتیب دے کر بیک زبان دیش اور دُنیا کو پیغام دے سکتی ہےکہ جموں کشمیر کے لوگ جمہوریت پسندہیں ‘ وہ اپنے سیاسی مسائل کا جمہوری حل ڈھونڈنے میں پختہ یقین رکھتے ہیں ‘ وہ آئین ِ ہند کے بنیادی حقو ق کی اساس پر اپنے کھوئے ہوئےسیاسی وقار کی بازیابی چاہتے ہیں ۔ اس نوع کے سیاسی اتحاد کے لئے قائدین کو چار وناچارآگے بڑھنا ہوگا ۔ فی الحال قائدین اپنے شخصی اختلافات اور ذاتی اقتدار کو قوم کے وسیع تر مفاد پر فوقیت دیتے ہوئے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف نظر آتے ہیں : کوئی خود کو کنگ میکر کہتا پھرتا ہے ‘ کوئی اپنے سوا ہر دوسرے لیڈر کو بھاجپا کی بی ٹیم سی ٹیم ہونے کی افواہیں پھیلا رہاہے‘ کوئی الیکشن رزلٹ کا انتظار کئے بغیراپنی جیت کے خیالی جشن میں اعلان کر ڈالتا ہے کہ ہم وہ ہیں جو اسمبلی میں اپنی عددی قوت کے بل پر فیصلہ کریں گے کہ کس کی حکومت بنے ‘کس کی نہ بنے ‘ باوجود یکہ بھاجپا کے کئی اُمیدوار علامتی طور میدان میں کھڑے ہیں‘ کوئی اپنے حریف کوبی جے پی کا پراکسی قرار دئے جارہا ہے ‘ کوئی کسی اور ہی فسانے چھیڑ کر عوام کو درپیش اصل مسائل پر ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا‘ کوئی اپنی ٹوپی کا سوال دے کر لوگوں کی ہمدردیاں جیتنے کی جذباتی اپیل آزماتا ہے ‘ کوئی اپنے سابقہ سیاسی حلیفوں کے خلاف غدار ہے غدار ہے کا نعرہ الاپتا ہے ‘ کوئی ادب ‘تہذیب‘ شائستہ کلامی اور سنجیدہ گفتگو کی تمام حدیں پار کر کے سرراہ اپنے سیاسی ناقدین کی خبر لینے کے نئے ریکارڈ بنا نےمیں لگاہے‘ کوئی مسئلہ کشمیر کی ہمالیائی چٹان سے اپنا سر ٹکرانے کا دکھاوا کرکے اپنی تقریروں کے چھلاوے چلاتا ہے ‘ کوئی خود کو دودھ کا دُھلا ثابت کر نے میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا ہے‘ کوئی آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کا سبزباغ دکھا کر اپنے لئے ووٹ کا کھل جا سم سم کا فراڈیہ گیم کھیل رہا ہے‘ کوئی دودھ کی نہریں اور شہد کے چشمے بہانے کے جھوٹے وعدے دئے جا رہا ہے۔ رہی بات الیکشن لڑنے والے پُراسرار آزاد اُمیدواروں ‘ متعددکاغذی جماعتوں اور میدان میں بطور کنڈیٹ موجود ’’پُراز مطلب بھیڑ‘‘ کی‘ اس بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ بناہواہے ‘ ان لوگوں پر زیادہ تر ووٹ کٹوا اور پراکسی ہونے کی پھبتیاں کسی جارہی ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ غرض جس طرح ماضی میں کشمیریوں کو باڑے کا ٹٹو سمجھ کر سیاست کار اُن کا جذباتی استحصال کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے‘ آج بھی بد قسمتی سےکم وبیش معاملہ و یسے کاویسا ہے۔ بایں ہمہ ہمیں یہ امرواقع نہیں بھولنا چاہیے کہ خطے کے تمام طبقات کے لئے یہ ایک ایسا تاریخ ساز سنہری موقع ہے جب ہم۵؍ اگست ۲۰۱۹کو دفعہ ۳۷۰ پر مارے گئے شب خون سے اپنے دل وجگر کے لگے زخموں پر ووٹ کی پرچی کا مرہم لگا سکتے ہیں ‘ جب ہم اپنے سیاسی خسارے ‘ احساس ِ زیاں اور مجروح جذبات پر اشک شوئی کے بجائے نئے حالات وحقائق کی روشنی میں بغیر کسی خارجی دبا ؤخوف اور ڈر کےوشال دیش کے اندر اپنے شاندار سیاسی ومعاشی مستقبل کی تعمیر کے لئے اَنتھک سفر کی نیک شروعات کر سکتے ہیں۔ اس صحت مند سوچ کے برعکس جب مختلف جماعتوں میں بٹی ہماری ٹاپ سیاسی لیڈرشپ الیکشن کے زریں موقع کو بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچائی میں ضائع کرے ‘ آپس میں جوتم پیزار ہونے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھے‘ ایک دوسرے کے خلاف بھاجپا کی اے ٹو زِی ٹیم ہونے کے فتاویٰ دیتے جائے ‘ تو اسے لوگوں کی کم نصیبی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟
ہمارے تسلیم شدہ سیاسی قائدین کو سمجھنا چاہیے کہ وقت بدلتے کوئی زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ اگر ان حضرات کا حافظہ بہت زیادہ کمزور نہ ہواہو تو اُنہیں یاد ہوگا کہ چشم ِ فلک نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب یہاں کا چپہ چپہ ‘ گلی گلی‘ بستی بستی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کےساتھ بے انتہا محبت کے سحرمیں جنون کی حدتک گرفتار تھی ‘گردش ِ افلاک نے جب اس بلند قامت قائد کی کرشمہ ساز شخصیت کا اقبال کرسی کی چار ٹانگوں تک محدود کرڈالا تو شیخ صاحب کی عوامی مقبولیت میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ زمانے کی آنکھ نے وہ دن بھی دیکھے جب حریت لیڈروں کو لوگوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا تو وقتی لہر سے یہ لوگ ہم ہستی میں اتنا بھٹک گئے کہ انہیں اپنے پیروں تلے زمین نظر نہ آئی کہ کبھی سبقت لسانی کا گناہ کر بیٹھے ‘ کبھی اپنے دروازے بندکر کے پارلیمانی وفدکے معزز ارکان کو خالی ہاتھ واپس لوٹایا ‘ اب آج کی تاریخ میںاُن کا کوئی نام لیوا نہیں ۔ اس لئے سیاست کے بے رحم مدوجزر کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمارے چوٹی کے سیاسی قائدین سے دست بستہ گزارش ہے کہ ابھی بھی حالات کو سنبھالا دیا جاسکتا ہے ‘ انہیں رواںا سمبلی الیکشن کو غنیمت جان کر بیچ منجدھار میں پھنسی جموں کشمیر کی قوم کو ساحل مراد تک لانے میں کرسی سے زیادہ عوامی مفادات سے وفاداری کا ثبوت دینا چاہیے۔ انہیں فوراًسے پیش تر مابعد انتخابات وسیع البنیاد اتحاد کے لئے آج بلکہ ابھی سے ذہین وفطین کھیون ہار بنتے ہوئے مثبت کاوشیں شروع کر نی چاہیے ؎
دلوں میں حُب ِ وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
