از:جہاں زیب بٹ
اسمبلی الیکشن کے دو مرحلے مکمل ہو گیے ۔جنوبی اور وسطی کشمیر کے رایے دہندگان کا فیصلہ الیکٹرانک مشینوں میں بند ہو چکا ہے ۔این سی لیڈرعمر عبداللہ کا دعویٰ ہے کہ پہلے دو مرحلوں میں وہ بھاجپا کو دور رکھنے کا معرکہ جیت گیے ۔تاہم خود ان کی جماعت اور مخالفین کہاں کھڑے ہیں اور کس نے کتنی بازی ماری اس بارے سبھی جماعتیں اور امیدوار تذبذب کا شکار ہیں ۔وٹس اپ گروپوں پر ایگزٹ پول کا سیلاب امڈ ایا ہے لیکن حقیقی رجحانات کے بارے کویی لکیر کھینچنا خاصا مشکل ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں نے روڑ شو کیے ، بڑی بڑی ریلیاں نکالیں لیکن اس سیاسی نمود ونمایش پر بھی اعتبار نہیں ہے۔ انجینر رشید اور صغریٰ برکاتی کی طوفانی نوعیت کی جذباتی الیکشن مہم کے دوران بھاری عوامی بھیڑ اکٹھا ہو تی دیکھی گیی لیکن پولنگ بوتھ پر جاکر کس نے کیا کیاہو گا یہ خدا ہی جانے۔انجینیر رشید نے جب جیل سے پارلیمانی الیکشن لڑا اور اس کے فرذند ابرار رشید نے جذباتی داؤ کھیلا تو عوامی ہجوم سے رجحانات کا بر وقت اندازہ عمر عبداللہ کو ہو سکا اور نہ ہی سجاد لون کو ۔اب کی بار انجینیرصاحب بہ نفس نفیس میدان میں ہیں لیکن ان کی بحثیت پارلیمنٹ ممبر حلقہ انتخاب بارہمولہ کی نمایندگی کرنے کے حوالے سے جو غیر یقینت اور خدشات پایے جاتے ہیں وہ اب کی بارشمالی کشمیر کے ووٹر کی مثبت یا منفی ذہن سازی کریں گے اس بارے بھی کویی کچھ نہیں کہہ پا تا ہے۔بعض حلقے عوامی ہجوم بازی پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ انتخابی بانگڑہ کے ذریعے دس سالہ گھٹن ہلکا کرتے ہیں ۔یعنی انتخابات کے موقعہ پر بھی کشمیری کے بارے یہی رایے قایم ہو رہی ہے کہ اس کے سیاسی رویہ کے بارےقبل
از وقت کویی پیش گویی کرنا مشکل ہے۔
جنوبی اور وسطی کشمیر کے شہر سرینگر اور بڈگام میں ووٹر ٹرن آؤٹ کہیں کم ،کہیں بھاری اور کہیں اوسط درجے کا ریکارڑ کیا گیا ۔این سی اور پی ڈی پی کا جو اور جہاں روایتی ووٹ بینک ہے وہ کافی حد تک موبلایز ہو گیا ۔اس سے باہر جو وسیع حلقہ ہے چاہے تشدد متاثرین کا، بایکاٹ ذہن والوں کا ، مایوس طبقے کا یاسیا سی ہنگاموں سے لاتعلقی کاراستہ اختیار کر نے والوں کا، انکو انسپائر کرنے میں این سی اور پی ڈی پی کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھی یکسر ناکام رہے۔دوسروں کو انسپائر کرنا تو ایک بات جماعت اسلامی کا جو اپنا وو ٹ بینک تھا اس کا شیرازہ بھی تین حصوں میں بکھرگیا۔ایک آدھ جماعتی کارکنوں نے اپنے آزاد امیدواروں کو وو ٹ دیا اور کچھ تو لکیر کے فقیر بنے رہے اور مرغے کی ایک ٹانگ ایسی احمقانہ سوچ میں گرفتار اور کچھ نے حب کاروبار ٹھیکہ داری وغیرہ میں پی ڈی پی کو حسب عادت وو ٹ دیا ۔اس صورتحال نے انتخابی رجحانات کے حوالے سے پیچیدگی پیدا کری اور حقیقی ایگزٹ پول کا راستہ دشوار ہو گیا اور اب نتایج کے بارے صرف اٹکلیں لگایی جارہی ہے یا افواہ بازی ہو رہی ہے۔جنوبی اور وسطی کشمیر کے انتخابی منظر ناموں اور ووٹر ٹرن آؤٹ سے بس اتنا کچھ انداذہ ہو رہا ہے کہ یہاں این سی کانگریس اتحاد زیادہ نشستوں پر قبضہ جماسکتا ہے ۔پی ڈی پی کا پہلا جیسا سیاسی جلوہ قایم تو نہیں رہ سکتا لیکن اس کی ساکھ اگر بچ گیی تو جنوبی کشمیر میں ہی کہیں کہیں اور سب سے زیادہ غالباً ضلع پلوامہ کی چار میں سے دو تین نشستوں سے ۔
