حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت پر پوری دنیا میں غم و الم کا اظہار کیا جارہاہے ۔ کشمیر میں بھی اس ہلاکت سے ہیجان کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ اس ہلاکت کی خبر سامنے آتے ہی پارلیمنٹ ممبر آغا روح اللہ نے شمالی کشمیر میں جاری الیکشن مہم معطل کرکے گھر کی راہ لی ۔ اسی طرح پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے کسی بھی عوامی جلسے میں شرکت سے انکار کیا ۔ انہوں نے اس ہلاکت کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے خلاف کشمیر کے مختلف علاقوں میں احتجاجی جلوس نکالے گئے ۔ ان جلوسوں میں شامل لوگوں نے واویلا کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے ۔ کئی جگہوں پر غائبانہ نمازہ جنازہ پڑھا گیا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کرکے اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ یاد رہے کہ حسن نصر اللہ کو اپنے کئی ساتھیوں سمیت جمعہ کو اس وقت بیروت میںایک فضائی حملے میں مارا گیا جب آپ اپنے زیر زمین بنکر میں مبینہ طور ایک اہم میٹنگ کی صدارت کررہے تھے ۔ حزب اللہ نے پچھلے کئی مہینوں سے اسرائیل کے خلاف اپنی سرگرمیوں میں اس وقت تیزی لائی تھی جب حماس کے سربراہ اسمائیل ہانیہ کو ایران میں راکٹ حملے کا نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کیا گیا ۔ حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کاروائیوں میں اس وقت تیزی لائی گئی جب اس کے ارکان کے زیر استعمال کئی پیجر اور واکی ٹاکی سیٹ اچانک دھماکوں سے پھٹنے لگے ۔ ان دھماکوں سے حزب اللہ کے چالیس اہم ارکان ہلاک اور تین ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ اس کے بعد تنظیم سے جڑے نوجوانوں نے اس طرح کے تمام آلات کا استعمال کرنا ترک کیا ۔ اس کے باوجود حسن نصراللہ کی ہلاکت کا واقع پیش آیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وسیع پیمانے پر انٹلی جنس کام کا نتیجہ ہے ۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ کئی سالوں سے کررہے اپنے کام کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ کو ہلاک کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ مہینوں سے جاری منصوبہ بندی کے بعد بیروت کے جنوب میں واقع حزب اللہ کے ضاحیہ ہیڈ کواٹر کو ایسے وقت نشانہ بنایا گیا جب وہاں تنظیم کی لیڈر شپ ایک اہم اجلاس منعقد کررہی تھی ۔ اسرائیلی حکام کو مبینہ طور میٹنگ کے بارے میں چند گھنٹے پہلے معلومات حاصل ہوئی تھیں جس کے بعد حملہ کرکے یہ بڑی کامیابی حاصل کی گئی ۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے از خود اس حملے کی منظوری اس وقت دی جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کررہے تھے ۔ اسرائیل کے اس حملے کی بڑے پیمانے پر مزمت کی ہے جبکہ کئی عالمی رہنمائوں نے اس ہلاکت کے ممکنہ اثرات کے بارے میں دنیا کو خبردار کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے جمعہ کو کئے گئے حملے اور اس کے بعد بیروت میں جاری کاروائیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے بیروت میں کئے گئے حملے میں حسن نصر اللہ اور دوسرے عام شہریوں کی ہلاکت پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ ایران کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں اسرائیل کو خبردار کیا گیا ہے کہ حزب اللہ کے کام پر حسن نصراللہ کی موت سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور فلسطینیوں کی جد و جہد جاری رہے گی ۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس ہلاکت پر پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے ۔
موجودہ دنیا کے مزاحمت پسند حلقوں میں حسن نصر اللہ کے اہم نام تھا جس کو بڑے حیران کن طریقے سے مٹادیا گیا ۔ آپ 1975 میں پہلی بار منظر عام پر آئے تھے اور جب سے اسرائیل کے خلاف کی جارہی کاروائیوں کے حوالے سے ایک پہچان بن گئے تھے ۔ انہیں ایران کی پاسداران انقلاب کی حمایت حاصل تھی ۔ انہوں نے جنگی کاروائیوں کے علاوہ حزب اللہ کو بیروت کی سیاست میں ایک اہم مقام دلوایا ۔ وہاں کی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے پارلیمان کی کئی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ اس وجہ سے انہیں حکومت سازی میں اہم کردار مل گیا ۔ اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے حزب اللہ کو عالمی شہرت فراہم کی ۔ موجودہ مرحلے پر حزب اللہ لبنان کی سب سے بڑی مزاحمتی ، سیاسی اور فلاحی تنظیم سمجھی جاتی ہے ۔ حزب اللہ کے نئے قائم مقام سربراہ کو حسن سے زیادہ سخت گیر اور اسرائیل دشمن سمجھا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جاری کاروائیوں میں اضافہ ہوگا ۔ اسرائیل کے عوام بڑی تعداد میں ملک سے رخصت ہوچکے ہیں اور تل ابیب میں مبینہ طور پہلے سے زیادہ خوف کا ماحول پایا جاتا ہے ۔ اسرائیل بھی غزہ اور بیروت میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے جس سے وہاں بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ۔ ایک سال سے جاری کاروائیوں کے باوجود ابھی تک اسرائیل مزاحمتی فورسز کو خاموش کرنے میں ناکام ہے ۔ حسن نصر اللہ کی ہلاکت سے مزاحمتی کاروائیوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ۔
