از:جہاں زیب بٹ
عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ نے یہ تجویز رکھی ہے کہ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں حکومت بنانے میں جلد بازی نہ کریں بلکہ پہلے ریاستی درجہ بحال کرنے پر تو جہ مرکوز کریں پھر حکومت بناییں۔اس پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہویے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے انکشاف کیا کہ شخص مذکور چوبیس گھنٹے دلی گیا تھا اور وہاں اس نے خفیہ ملاقاتیں کیں جس کے بعد واپسی پر وہ بھاجپا مشن کو پایہ تکمیل پہنچانے کے کام میں جٹ گیے ہیں ۔عمر عبداللہ کا دعویٰ ہے کہ بھاجپا کو یوٹی میں حکومت کا حصہ بننے کی کویی صورت نظر نہیں آتی ۔لہزا وہ انجینیر رشید کو استعمال کر کے کچھ اس طرح کے حالات پیدا کر نا چاہتی ہے جس سے حکومت سازی کا کام رک جایے اور یہاں مرکزی راج نافذ کر نے کا جواز پیدا ہو ۔
کو کہ چناؤ نتایج ظاہر ہو نے میں ابھی کچھ گھنٹے ہی باقی ہیں لیکن اٹا ر وقراین سے ظاہر ہے کہ جذباتی انتخابی مہم کے باوجود انجینیر رشید کویی تاریخ ساز کامیابی درج نہیں کر پاییں گے اور نہ ہی اگلی حکومت کی تشکیل میں ان کا کو یی کلیدی رول ہو گا۔نیی حکومت بنانے میں جن پارٹیوں کو حکومت سازی کے حوالے سے شاہ کلید کی حثیت حاصل ہوگی وہ این سی ،کانگریس اور پی ڈی پی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھاجپا کو نظر انداذ کر کےحکومت بنا نا ایک زبردست سیاسی جوا ہو گا ۔اس کا نتیجہ سیاسی استحکام کی صورت میں برآمد ہو گا کہ نہیں وہ ایک الگ بحث ہے لیکن مذکور تین جماعتیں غیر با جپا سرکار بنا نےکا معرکہ سر کر سکتی ہیں ۔ فاروق اور عمر عبداللہ کا دعویٰ ہے کہ با جپا سے اتحاد کا مطلب سیاسی بقا کا خاتمہ ہے، سیاسی موت ہے ۔پی ڈی پی بھی با جپا سے خفا ہے ۔لہذا سیکولر حکومت کے نام پر ایک سیاسی گٹھ جوڑ کا امکان روشن ہے۔اس میں انجینیر رشید کو جگہ ملنا محال ہے۔ ان کے بغیر حکومت بننے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ بتدریج پس منظر میں چلے جاییں گے ۔چنانچہ ریاستی درجہ کی بحالی سے پہلےحکومت سازی سے احتراز کی ان کی تجویز کا محرک دن کو مبینہ طور لاحق سیاسی بقا کی پریشانی ہو یا نیت کچھ بھی ہو لیکن مبصرین کے مطابق ان کی تجویز کو کشمیر کے بازار سیاست میں خریدار ملنا ناممکن ہے۔سو چنے کی با ت ہے دس سال بعد الیکشن ہو ا ۔عوام نے منڈیٹ دیا ۔اب اگر حکومت سازی سے انکا ر اور اجتناب کیا جا یے تو اس کا حاصل سیاسی تعطل کے سوا اور کیا ہو گا ؟ یہ کشمیر کو بیرو کریسی راج کی طرف دھکیلنے کی بچگانہ حرکت ہوگی ۔
