از: عالی مرتبت الثانی بن احمد ال ضیاودی، متحدہ عرب امارات کے غیر ملکی تجارت کے وزیر اور تجارت و صنعت، صارفین امور اور خوراک و سرکاری نظام تقسیم ، نیز ملبوسات کے وزیر، حکومت ہند، عالی جناب پیوش گوئل
بھارت اور متحدہ عرب امارات کے مابین استوار قریبی تعلقات کیوں مواقع فراہم کریں گے اور خوشحالی کو فروغ دیں گے۔
ٹھیک ایک سال قبل، 18 فروری 2022 کو متحدہ عرب امارات اور بھارت نے ہمارے طویل اور بارآور تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کیا تھا۔ نئی دہلی میں، جمعہ کی شام عالی مرتبت شیخ محمد بن زائد نیز بھارت کے عالی مرتبت وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات-بھارت جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے پر دستخط ہونے کا عمل ملاحظہ کیا تھا۔ یہ ایک سنگ میل معاہدہ تھا جس کا مقصد ہمارے دونوں ممالک کے مابین کلیدی تعاون کو فروغ دینا اور علاقائی نمو کو مہمیز کرنا تھا۔
چونکہ یہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے کیا جانے والا اپنی نوعیت کا اولین باہمی تجارتی معاہدہ تھا اور ساتھ ہی ساتھ ایم ای این اے خطے میں واقع بھارت جیسے ملک کے ساتھ بھی پہلا معاہدہ تھا۔ لہٰذا یہ حقیقی معنوں میں ایک سنگ میل تھا، اس سے بھی کہیں زیادہ اہم اقتصادی کھلے پن اور اتحاد کی قوت میں مشترکہ یقین کا ایک اظہار بھی تھا۔ 80 فیصد سے زائد مصنوعات کے سلسلے میں عائد ہونے والے محصولات میں تخفیف یا ان کی منسوخی، خدمات برآمدات رسائی منڈی تک عمل دخل میں اضافہ ترجیحاتی شعبوں میں سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرنا اور ایس ایم ای کو اشتراک اور وسعت کے لحاظ سے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ، یہ تمام امور اس معاہدے میں شامل تھے، اس کے ذریعہ ہم نے ایک غیر یقینی دنیا میں مواقع کے ایک نئے عہد کا تصور پیش کیا۔
متحدہ عرب امارات کے لیے سی ای پی اے دنیا کی پانچویں سب سے وسیع معیشت برآمدکاروں کے لیے بلا روک ٹوک داخلے کا راستہ ہموار کرے گا۔ ایک ایسا ملک جہاں تیزی سے متوسط طبقہ ابھر رہا ہے اور سا تھ ہی ساتھ تکنالوجی کا ایکو نظام اپنی جڑیں جما رہا ہے۔ بھارت کے لیے، اس معاہدے نے مشرق وسطی اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک داخلی دروازہ فراہم کیا۔ صنعتوں کے لیے کاروبار دوست پلیٹ فارم فراہم کیا اور اختراع کاروں کو پروان چڑھنے کے لیے موقع فراہم کیا۔ ہم دونوں ممالک کے لیے اس کے ذریعہ سپلائی چینوں کو تحفظ حاصل ہوگا اور اس دہائی کے آخر تک غیر تیل والے تجارت میں سالانہ لحاظ سے 100 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کی لین دین کا راستہ ہموار ہوگا۔
اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس قدر دور رس اثرات کا حامل اولو العزم معاہدہ محض 3 مہینوں کی مدت کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچایا گیا ہے۔ یہ معاہدہ مہینوں میں تشکیل پایا، تاہم یہ مدت باہمی اعتماد، اشتراک اور باہمی تبادلے کی پانچ دہائیوں پر مشتمل تھی۔ یہ متحدہ عرب امارات ۔ بھارت سی ای پی اے اقتصادی تحریک یا انقلاب کم اور دونوں ممالک کے لیے منطقی بنیادوں پر مشتمل ایک اگلا قدم تھا، جن کی تاریخیں اتنی دائمی اور مربوط ہیں۔
دستخط ہونے کے بعد سے آئندہ ایک سال کے اندر اور اس کے مکمل نفاذ کے 9 مہینوںمیں تمام تر اشارات پتہ دیتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ اس معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا بلکہ ایک چنوتی بھرے اقتصادی ماحول میں یہ ازحد لازمی بھی تھا۔ 2022 میں غیر تیل پر مبنی باہمی تجارت 49 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تک پہنچ گئی۔ 2021 میں 10 فیصد کا اضافہ رونما ہوا اور 2030 کے نشانہ کے لحاظ سے اہم قدم اٹھایا گیا۔ متحدہ عرب امارات کو بھارت کی جانب سے کی جانے والی برآمدات نمو پذیر ہوکر 26 فیصد تک پہنچ گئی اور ازسر نو برآمدات میں 10 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے ایک اہم تجارتی سہولت کار کے طور پر ہماری حیثیت کو اعتبار حاصل ہوا ہے۔ دبئی چیمبرس آف کامرس نے بھی رپورٹ دی ہے کہ انہوں نے سال 2022 میں 11000 کے بقدر نئی بھارتی کمپنیوں کو درج رجسٹر کیا تھا۔ اس لحاظ سے مجموعی تعداد 83000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہم دونوں ممالک کے مابین اقتصادی اور ثقافتی روابط مزید مستحکم ہوں گے۔
منفعت اور خسارے سے کہیں آگے:
یقیناً ، سی ای پی اے کی کامیابی اعداد و شمار سے کہیں آگے کی بات ہے۔ ہم دونوں ممالک نے اپنے متعلقہ وفود کو ہمہ وقت مستحکم ہو رہے باہمی اقتصادی روابط کو مزید عمیق بنانے کے لیے بھیجا۔ مارچ 2022 میں جناب گوئل نے سینئر سرکاری افسران، بھارتی برآمد کاروں اور بھارتی صعنت کے قائدین پر مشتمل ایک وفد کی متحدہ عرب امارات نے قیادت کی۔ یہ وفد اس مقصد سے وہاں گیا تھا کہ نوتشکیل شدہ سی ای پی اے ایکو نظام کے لیے فزوں تر سازگار کاروباری اشتراک اور ماحول بنایا جائے۔ اس سے ایک ہفتے سے تھوڑا قبل عالی جناب ال ضیاودی نے افسران، کاروباری قائدین اور صنعت کاروں پر مشتمل ایک وفد کی قیادت کی اور بھارت آئے۔ جس نے اس اشتراک کے لیے ضروری مواد فراہم کیا جسے اب واضح شکل دی جا رہی ہے۔
مثال کے طور پر بنگلورو میں ڈیوکیب گروپ کا نیا علاقائی دفتر جس کے توسط سے بھارتی توانائی اور تعمیراتی شعبوں کی بہتر خدمات ممکن ہو سکے گی۔ یہ ادارہ مارکیٹ میں سرکردہ حیثیت کے حامل کیبل اور دھاتی مصنوعات فراہم کرے گا۔ اس کے بعد عالمی سرمایہ کار سربراہ ملاقات منعقدہ اترپردیش میں متحدہ عرب امارات سے آئے ہوئے وفد کی شرکت ہوئی، متحدہ عرب امارات کے نجی شعبے کی جانب سے کی جانے والی 2.5 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کی سرمایہ کاری پر نظرثانی کی گئی۔ یہ سرمایہ کاری قابل احیاء توانائی، لاجسٹکس، خوردہ اور خوراک ڈبہ بندی پروجیکٹوں میں کی جانی تھی اور بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں کی جانی تھی۔ یہ تمام تر پروجیکٹ ایسے ہیں جن میں 20000 روزگار فراہم کرنے کے مضمرات کارفرما ہیں۔
مئی 2022 سے دونوں ممالک نے متعدد دیگر اہم شراکت دار سلسلے کا آغاز کیا ہے ، ان میں 300 میگاواٹ کے گجرات میں قابل احیاء توانائی پروجیکٹ اور بھارت بھر میں ہمہ گیر خوراک پارکوں کے قیام کی تجویز شامل ہے جو فضلے کو کم کرنے اور پانی کے تحفظ کے لیے جدید ترین تکنالوجی کا استعمال کریں گے۔ گذشتہ برس بھی ڈی پی ورلڈ نے دبئی انکیوبیٹر سینٹر قائم کیا۔ یہ تکنالوجی کو مہمیز کرنے والا ایک پلیٹ فارم ہے جسے انویسٹ انڈیا اور اسٹارٹ اپ کیرلا مشن کی شراکت داری میں قائم کیا گیا ہے تاکہ بھارت کے لاجسٹکس شعبے میں اختراع کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
باہم ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کرنے والی ہماری شراکت داری اور ارتباط کی نوعیت ابھی اپنے اصل مضمرات تک پہنچنی باقی ہے۔ اگر سی ای پی اے کے نفاذ کے بعد یو اے ای کی جانب سے کی جانے والی چند حالیہ سرمایہ کاریوں کی بات کی جائے اور انہیں کچھ اہمیت دی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری شراکت داری کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ ایسی متعدد مضمراتی اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد پہل قدمیاں ہیں جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ خواہ یہ ورچووَل ٹریڈ گلیارے ہوں یا بھارت کی ریاست گجرات میں گفٹ سٹی میں ابو ظہبی سرمایہ کاری اتھارٹی کے دفاتر کا مضمراتی قیام ہو۔ ہم مستقبل کے بے پناہ امکانات کی تلاش میں مصروف ہیں اور ہم دونوں ممالک کے مابین دونوں کے لیے منفعت بخش اشتراک کی جستجو میں مصروف ہیں۔
اس نوعیت کے فعال مشترکہ کاروبار کے تحت جو ہمارے سی ای پی اے کے لیے اصل مضمرات فراہم کرتا ہے، ہر طرح کی پونجی کی افزودگی، خواہ یہ پونجی انسانی وسائل کی شکل میں ہو، تکنالوجی یا سرمائے کی شکل میں – ترقی کرنا اور مسائل کا حل نکالنا ہے۔ یہ وہی مسائل ہوں گے جو صحیح معنوں میں دنیا کے بدلتے ہوئے اثرات اور ان کا حل پیش کر سکیں گے۔
ایک بدلتا ہوا اقتصادی نقشہ:
اہمیت کے لحاظ سے ، متحدہ عرب امارات اور بھارت کی شراکت داری اس امر کو یقینی بنائے گی کہ ہمارے دونوں ممالک تغیر پذیر عالمی اقتصادی نقشے میں اپنی منفعت بخش جگہ حاصل کر سکیں۔ ایک فزوں تر منظر نامے میں ایشیا اور اس کے قلب کے ساتھ اپنے مقامات کے حامل بن سکیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق ایشیا اور پیسفک خطہ اس سال عالمی نمو کی قیادت کرے گا۔ مجموعی گھریلو پیداوار تخمینہ اضافہ 4.6 فیصد کے بقدر کا لگایا گیا ہے۔ آئندہ 5 برسوں کے دوران چین کو چھوڑ کر آسیان اور جنوبی ایشیائی خطےبرآمدات اور درآمدات کی نمو کے معاملے میں دنیا کی قیادت کریں گے۔
ایک سال قبل مثبت اندازِ فکر اور امکانات کے جذبے کے ساتھ، متحدہ عرب امارات اور بھارت دونوں اس مقصد سے یکجا ہوئے کہ ان حقائق کو اپنائیں اور اپنے دونوں ممالک کو فزوں تر نمو اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کر سکیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ متحدہ عرب امارات-بھارت سی ای پی اے کو نہ صرف یہ کہ ہماری اقتصادی داستانوں میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جائے گا بلکہ یہ معاہدہ سرحد پار کے اشتراک کے معاملے میں ایک دیرینہ نمونہ بھی ثابت ہوگا۔