تحریرر:سوہیل علی
اٹھارہ سالہ محمد سلمان نے اپنی تعلیم آٹھویں جماعت میں چھوڑ دی کیوں کہ انہیں کوئی امید نہیں کہ اسے سرکاری نوکری ملے گی۔سلمان کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اب بھی بے روزگار ہیں اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ اعلیٰ درجے کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اگر نوکری نہیں ملتی تو کون مجھ سے وعدہ کرے گا کہ مجھے ایک عام سے اسکول میں پڑھنے کے بعد نوکری مل جائیگی؟ کیونکہ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور مجھے گھر چلانے میں اپنے مزدور والدین کی مددبھی کرنی ہے۔ سلمان مزیدکہتے ہیں کہ روزگار ملک میں نہیں ہے اوراس لیے میں پڑھائی کی جگہ ڈرائیونگ سیکھ رہا ہوں تاکہ روزمرہ کی سخت مزدوری سے نجات ملے اور گاڑیاں چلا کر دو وقت کی روٹی میسر کر سکوں۔انیس سالہ اعجاز شاہ بارھویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ کر ممبئی میں مزدوری کرنے چلے گئے۔اعجاز کہتے ہیں کہ سرکاری نوکری کی امید نہیں تھی اور گھر سے باہر ممبئی میں جاکر مزدوری کرنا بہتر سمجھا اسلئے پڑھائی کو خیر آباد کہہ دیا۔وہ کہتے ہیں کہ 20 سے 30سال کی عمرکے نوجوان بہت زیادہ بے روزگار ہیں اور نوکری کی کوئی امید نہیں ہے۔ان کے مطابق ایسی پڑھائی جو ایک نوکری تک نہ دلوسکے اسکو کرنے کے بجائے بروقت کام کاج کر کے گھر چلانا بہتر ہے۔انیس سالہ عامر احمد نے بھی گیارھویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ دی۔عامر نے پڑھائی چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہاکہ نوکری کی کوئی امید نہیں ہے۔ایسے میں وقت ضائع کئے بغیر کچھ کام کاج کرنا بہتر ہے کیونکہ بے روزگار کے عالم میں روزگار کی کوئی امید نہیں ہے۔
نہ جانے سلمان، اعجاز اورعامر کی طرح کتنے نوجوانوں نے اپنی تعلیم کو ایسے ہی خیر آباد کہہ کر دو وقت کی روٹی کیلئے جتن شروع کر دئے ہوں گے۔یقینی طور پر نوجوان نسل یعنی ہندوستان کا مستقبل روزگارکی امید کھو رہے ہیں اور اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ کر دو وقت کی روٹی کیلئے جتن کرنے میں مائل ہیں۔ملک میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اوربے روزگاری کے اعدادوشمار نوجوانوں کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ہمارے ملک میں بے روزگاروں کے اعدادوشمار واقعی خوفزدہ ہیں۔ سال 2023 اور 24 میں بے روزگاری کی بات کریں توفوربیس انڈیارپورٹ کے مطابق 2023 میں بے روزگاری کی شرح 8.003 فیصد تھی جو 2022 کے 7.33فیصد مقابلہ زیادہ تھی۔ جبکہ جنوری 2024 کا آغاز ایک خوش کن نوٹ کے ساتھ ہوا، جس میں بے روزگاری کی شرح میں 6.8 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔جنوری 2024 میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ 16 مہینوں میں سب سے کم رہی یہ نوجوان نسل اور ہمارے ملک کے لیے بہت اچھی علامت تھی لیکن اچانک بے روزگاری کی شرح فروری 2024 میں بڑھ کر 8 فیصدہو گئی۔وہیں سنٹر فارمونئٹرنگ انڈین ایکونامک یعنی سی ایم ائی ای کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2024میں بے روزگاری میں اضافہ واقعی خوفزدہ تھا۔وہیں دیہی بے روزگاری کی شرح جنوری میں 5.8 فیصد سے فروری میں تیزی سے بڑھ کر 7.8 فیصد ہوگئی۔ جبکہ شہری بے روزگاری کی شرح 8.9 فیصد سے کم ہو کر 8.5 فیصد رہ گئی۔دریں اثناء شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں اس کا اثر زیادہ ہے ۔خاص طور پر غریب خاندانوں میں اثرات کافی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں 2024 تک بے روزگاری کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے اور یہ بے روزگاری پوری ملکی معیشت کو تباہ کر رہی ہے اور مزید غربت پیدا کر رہی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا براہ راست اثر ملک کی نوجوان نسل پر ہو رہا ہے۔
جب ہم بے روزگاری کے حل نہ ہونے والے مسئلے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخربے روزگاری دن بدن کیوں بڑھ رہی ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو بے روزگاری کو بڑھا رہے ہیں؟ اور سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ روزگار کی موجودہ صورتحال یا بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہمارے ملک کی نوجوان نسل کو براہ راست متاثر کر رہی ہے یا نہیں؟اس سلسلے میں 20 سال کے راشد احمدکہتے ہیں کہ”ہمارے ملک میں بے روزگاری کا بڑا مسئلہ آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح ہے جو بہت زیادہ مسابقت پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے 10 اسامیوں پر 200 افراد ہوتے تھے لیکن اب 10 اسامیوں پر 1000 افراد کی آبادی ہونے کی وجہ سے مسابقت اور بے روزگاری پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص کوبہت زیادہ پڑھائی کے بعد نوکری نہ ملے اور مزدوری کرے پھر یہ یقینی طور پر علاقے کی نوجوان نسل کو متاثر کرے گا۔“ایس کے سی میموریل ڈگری کالج پونچھ کی ایک طالبہ عاصمہ بدرکہتی ہیں کہ”آج ہمارے ملک کی زیادہ سے زیادہ آبادی دیگر شعبوں کے بجائے سرکاری نوکری چاہتی ہے جس سے لوگوں کی اپنی صلاحیتیں کم ہو رہی ہیں۔وہیں بڑھتی ہوئی آبادی بے روزگاری میں اضافہ کر رہی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے سے چھوٹی ملازمت سے اعلیٰ سطح تک بہت زیادہ مسابقت پیدا ہو رہی ہے جو بہت سے طلباء کو تناؤ، ناامید اور مزید ذہنی مسائل کی طرف لے جاتا ہے۔ایک اور طلاب علم 19 سالہ علم محمد کیف بھٹی نے کہا کہ ”ہمارے ملک کی بے روزگاری کی صورتحال براہ راست ہمارے ملک کی نوجوان نسل کو متاثر کر رہی ہے چونکہ اعلی مسابقت کے ساتھ کم روزگار ہے جو نوجوان نسل کو تنزلی اور تناؤ کی طرف لے جاتا ہے۔“ایک طالب علم دھرو شرما کہتے ہیں کہ ”نوجوان نسل موجودہ حالالت سے پریشان ہے کیونکہ روز بروز بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے۔ ان کا صرف تعلیم کے میدان میں ہی نہیں، بلکہ ہنر کے میدان میں بھی سخت مقابلہ ہے۔انہوں نے مزیدکہا کہ ایسے حالات میں حکومت کو اپنی نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔جس میں اسکول کی سطح پر ہی طلباء کی مہارت پر کام ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں میں ٹیکنالوجی کی سہولیات دیہی علاقوں سے زیادہ ہیں جو زیادہ مسابقت پیدا کرتا ہے۔
قارئین بے روزگاری سے اس وقت پڑھا لکھا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ پریشان ہے۔جموں وکشمیر سروسز سلیکشن بورڈ کے ذریعے مختلف اسامیوں کو پر کرنے کیلئے منعقدہ حالیہ امتحانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اعداد و شمار رونگٹے کھڑے کرنے والے ہیں کیونکہ یہاں درجن بھر اسامیوں کیلئے ہزاروں اور چند سو اسامیوں کیلئے لاکھوں کی تعداد میں امیدوار امتحانات میں بیٹھتے ہیں۔ وہیں جے کے پی ایس آئی بھرتی میں ہوئی دھاندلی بھی پوشیدہ نہیں ہے۔امتحانات ہوئے اور منسوخ کر دیے گئے جیسے حالات بھی نوجوانوں نے دیکھے ہیں۔ایسے میں جمع پونجی ختم ہونے کے بعد نوجوان اس طرف سے خود کو صرف دو وقت کی روٹی میسر کرنے کیلئے مزید اقدامات کرنے کی طرف مائل کر رہے ہیں۔جہاں اسکولوں اور کالجوں سے طلباء تعلیم کو خیر آباد کہہ رہے ہیں،وہیں نوکریوں کیلئے ہورہے امتحانات سے بھی امیدوار کنارہ کشی کر رہے ہیں کیونکہ اسامیوں کم اور امیدوار اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔یہ صرف نوجوانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کی ترقی کے لئے بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ اس بار کے لوک سبھا انتخاب میں سیاسی جماعتیں نوجوانوں کے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرینگی اور آنے والی حکومت اس مسئلے کوحل کرنے میں ترجیح دینگی۔ (چرخہ فیچرس)