جہاں زیب بٹ
ایک اہم سیاسی پیش رفت کے طور پرممنوعہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے پابندی ہٹنے کی صورت میں اپنی سابقہ روایت کو بحال کرنے اور آنے والے اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے کااعلان کیا ھے۔پانچ سال پہلے جب مرکزی حکومت نے جماعت کو مبینہ طور پر قوم دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں کالعدم تنظیم قرار دیا تو آیندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے تنظیم نے ایک پینل ترتیب دیا جس کی امارت سرکردہ جماعتی رہنما غلام قادر وانی کو سونپی گئی۔وانی پلوامہ کے مقتدر شخصیات میں شمار ہوتے ہیں تاہم گزشتہ تیس پینتیس سال کے دوران نا گفتہ بہ حالات کی وجہ سے ان کو جماعت میں پذیرائی نہیں ملی ۔وہ جماعت کے ان چند مقتدر لیڈ روں میں شمار ہوتے ہیں جو کلیتاً مسلح بغاوت کے حق میں نہ تھے ۔ان کے قریبی حلقوں کے مطابق وانی نےنوے کے جذباتی سیلاب کے دوران ہی متنبہ کیا تھا کہ کہیں ایک دن ایسا نہ آئے کہ کشمیری یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ مسلح بغاوت آوارہ گردی تھی ۔تب خوف و ڈر کا عجب ماحول تھا اور صرف اشاروں کنایوں سے ہی حقیقت کو سمجھا نا ممکن تھا ۔یہ اور بات ھے کہ وانی کی مثبت سوچ کو وقت پر زیادہ خریدار نہ ملسکی مگر آگے چل کر جب غلام محمد بٹ امیر جماعت منتخب ہوئے تو انھوں نے جماعتی دستور کا حوالہ دیکر عسکریت سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور پرامن طور طریقوں سے سماجی اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا تاہم گیلانی فیکٹر اور عسکریت کے لئے سازگار ماحول قایم رہنے کی وجہ سے جماعت دباؤ میں رہی اور چارو ناچار اس حریت گاف کا حصہ بننے پر مجبو ر ہوگئی جو قیامت تک الیکشن کو شجر ممنوعہ بنایے رکھنے پر بضد تھی۔اس حقیقت کا برملا اعتراف آج جماعتی رہنما غلام قادر وانی صاحب نے کیا جنھوں نے 13 مئی کو ووٹ ڈال کر جمہوریت پر اعتماد جتلا یا اور پریس کے سامنے دعویٰ کیا کہ جماعت پر دباؤ رہا ورنہ اس نے کبھی الیکشن بایکاٹ کی کال نہیں دی۔
غلام قادر وانی کی طرف سے الیکشن اور جمہوریت پر اعتماد کا اظہار کرنے کا موقف سامنے آنے پر مقامی طور ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔سابق جماعتی کارکن اور اپنی پارٹی کے سینیر لیڈر ڈاکٹر طلعت مجید نے وانی کی وضاحت کو “فکری،غسل” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کا اس سے جماعت پر دکان چلانے کا عمل معدوم ہوگا ۔کچھ حلقوں کا الزام ھے کہ امراء جماعت نے ہمیشہ پینترے اور چہرے بدلے ہیں ۔خود کچھ کچے ،خام ذہن اور مفاد پرست جماعتی تک وانی سے نالاں ہیں اور ان پر بھی سابق امیر جماعت جی ایم بٹ کیطرح سودا بازی کا الزام لگارہے ہیں ۔حد یہ ھے کہ وانی کے خوش آیند قدم سے جل بھن کر سرحد پار بیٹھے کسی شخص نے دعویٰ کیا کہ وانی کی پشت پر جماعت کی مجلس شوریٰ کھڑی نہیں ھے۔مجبور ہو کر وانی نے سرینگر آکر پریس کے سامنے آکر اس بات کا انکشاف کیا کہ ان کی مرکز سے بات ہوتی رہی ھے اور مجلس شوریٰ نے ہی امن عمل بشمول الیکشن میں شمولیت کا فیصلہ کیا ھے۔اس ضروری وضاحت سے وانی کا قدم حقیقی ہو نے میں شک و شبہ ختم ہو گیا ھے۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ھے کہ امراء جماعت پر قلا بازی سے لیکر جماعت پر طعنہ بازی تک کچھ بھی کیا جایے لیکن اس سے وانی کے جرت مندانہ قدم کی اہمیت کو گھٹایا نہیں جا سکتا۔ چلیے مان لیں جماعت سے فاش غلطیاں ہوئیں لیکن انصاف کا تقاضہ ھےکہ ان کی غلطیوں کو مجموعی قومی مزاج اور کردار کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ امن و قانون کی صورتحال بہتر ہونے سے جو اثرات کسی اور شخص یا تنظیم کی اٹھ بیٹھ ،چال و چلن اور طرزعمل پر مرتب ہویے اگر اس کی جھلک جماعت میں بھی دیکھنے کو ملے تو منہ کج کرنا کس بات پر؟جب عوامی زندگی میں برسہا برس سے بیٹھے سبھی کردار ننگے ہویے ہوں تو کون کس پر تھوک سکتا ھے؟ جماعت کی جمہوریت کی اور واپسی کا محرک چاہے جو بھی ھو لیکن اس سے بہرحال کشمیر میں برسوں سے پنپ رہی منفی اور انتہا پسندانہ سوچ کا دھارا بدلنے میں مدد ملے گی جو بدلی ہوءی صورتحال میں حکومت اور عوام کا مشترکہ کاز ھے اور ہونا چاہیے ۔ وانی کی امن پہل بہر حال مثبت پہلوؤں سے لبریز ھے اگے بال حکومت کے کورٹ میں ھے۔