شمالی کشمیر کے بارھمولہ ضلع میں پانچویں مرحلے پر پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہموار پولنگ کے لئے تمام انتظامات کئے گئے ہیں ۔ اس دوران سیاسی جماعتوں نے اپنی الیکشن سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے ۔ جمعرات کو پیوپلز کانفرنس کی طرف سے ایک بڑی عوامی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ضلع میں یہ اپنی نوعیت کا شاندار جلسہ تھا جس میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ جلسے میں پارٹی کے بارھمولہ نشست کے امیدوار سجاد لون کے علاوہ اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے شرکت کی ۔ اپنی پارٹی کی طرف سے پہلے ہی انتخابات میں سجاد لون کی حمایت کا اعلان کیا گیاہے ۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے سیاسی حلقوں کی مبینہ طور سجاد لون کو حمایت حاصل ہے ۔ پی سی کے علاوہ انجینئر رشید کی حمایت میں بھی روڈ شو کا انعقاد کیا گیا ۔سابق رکن اسمبلی انجینئر رشیدفی الوقت تہاڑ جیل میں قید و بند کے ایام گزار رہے ہیں ۔ ان کی اسیری کے پانچ سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ اس دوران انہوں نے بارھمولہ کی نشست سے پارلیمانی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ ان کی الیکشن مہم کی قیادت ان کے بیٹے نے سنبھالی ہے اور طول و عرض سے بہت سے نوجوان انجینئر کی حمایت میں سامنے آئے ہیں ۔ جمعرات کو انہوں نے جس روڈ شو کا انعقاد کیا اس میں درجنوں گاڑیوں کو لے کر جلوس نکالا گیا ۔ انجینئر کی حمایت کے لئے غلام نبی آزاد کی پارٹی بھی سامنے آئی ہے ۔ نیشنل کانفرنس کے علاوہ پی ڈی پی کی طرف سے بھی عوامی جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا جارہاہے ۔ سرینگر میں ووٹ ڈالنے کے بعد اب تمام سیاسی حلقوں کی سرگرمیاں شمالی کشمیر میں مرکوز ہوگئی ہیں ۔ یہاں الیکشن کے حوالے سے بڑے پیمانے پر سرگرمیاں نظر آرہی ہیں ۔
کشمیر میں پارلیمانی نشست پر انتخابات بڑی اہم حاصل کررہے ہیں ۔ اس نشست پر پی سی کے سربراہ سجاد لون کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ بھی الیکشن لڑرہے ہیں ۔ اسی طرح انجینئر رشید کے علاوہ پی ڈی پی کا امیدوار بھی میدان میں ہے ۔ ماضی میں اس نشست پر این سی کا قبضہ رہاہے ۔ این سی صرف دو بار الیکشن میں ناکام رہی ہے ۔ باقی تمام الیکشنوں میں این سی کے امیدوار کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ کانگریس نے دو بار جبکہ پی ڈی پی نے ایک بار یہاں کامیابی حاصل کی ہے ۔ این سی کے سیف الدین سوز نے مسلسل چار بار اس نشست سے کامیابی درج کی ۔ سوز ایسے واحد شخص ہیں جنہوں نے یہاں سے چار بار الیکشن میں کامیابی حاصل کی ۔ بعد میں سوز کے نیشنل کانفرنس کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور انہیں پارٹی کو خیرباد کہنا پڑا ۔ انہوں نے کانگریس کے ساتھ مل کر اپنا سیاسی کیریر آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔ لیکن یہ تعلق زیادہ دیر قائم نہ رہا ۔ جس کے بعد وہ گوشہ نشینی اختیار کرچکے ہیں ۔ اس دوران نیشنل کانفرنس نے یہاں محمد اکبر لون کو میدان میں اتارا ۔ وہ پچھلے انتخابات میں کامیاب ہوئے ۔ لیکن پارلیمنٹ کے اجلاسوں کے دوران کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوئے ۔ روان انتخابات کے لئے یہاں سے این سی کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ۔ سرینگر کے بجائے انہوں نے بارھمولہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ ایسا کیوں کیا گیا اس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ بارھمولہ سے ان کے الیکشن لڑنے پر کئی حلقوں نے انگلیاں اٹھائیں اور انہیں سیاح کا نام دیا گیا ۔ تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور میدان میں ڈٹے ہیں ۔ این سی کا دعویٰ ہے کہ عمر عبداللہ یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہونگے ۔ پارٹی کا خیال ہے کہ دوردراز کے علاقوں سے ان کو ووٹ حاصل ہونگے اور وہ اس نشست سے کامیاب ہونگے ۔ تاہم کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ آسانی سے جیت درج کرنا مشکل ہے ۔ اس حوالے سے سجاد لون کی الیکشن مہم کا حوالہ دیا جارہاہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ عمر عبداللہ کا مقابلہ کرنے کی الیت رکھتے ہیں ۔ ان کے جلسوں میں بڑے پیمانے پر لوگ شریک ہورہے ہیں ۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ لون پچھلے تیس چالیس سالوں کے دوران سب سے بھاری عوامی جلسے منعقد کرانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ کشمیر بلکہ جموں میں بھی مبینہ طور اس طرح کے بھاری عوامی جلسے کوئی لیڈر منعقد کرانے میں کامیاب نہیں رہا ۔ ادھر مبصرین خیال کرتے ہیں کہ این سی اپنے روایتی ووٹ بینک کے بل بوتے پر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگی ۔ اسی طرح انجینئر رشید اور پی ڈی پی کے ساتھ لوگوں کی وابستگی کی باتیں بھی کی جارہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی امیدوار کا آسانی سے کامیاب ہونا ممکن نہیں ۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ بارھمولہ نشست پر کانٹے کی ٹکر ہوگی ۔ اس وجہ سے انتخابات بڑے دلچسپ بنتے جارہے ہیں ۔ ووٹ 20 مئی کو ڈالے جارہے ہیں ۔ سارے امیدوار لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی بڑھ چڑھ کر کوششیں کررہے ہیں ۔ کامیابی کا قرعہ کسی کے حق میں بھی آئے ۔ ایک بات ضرور ہے کہ تیس سالوں بعد اس طرح کی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔