تحریر:مفتی غلام یسین نظامی
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
آپ کااسمِ گرامی ابوالحسن ،لقب :ترک اللہ، یمین الدین،تخلص: امیر خسروہے۔دہلی کی نسبت سے ”دہلوی” کہلائے۔اورآپ کے والد کا اسمِ گرامی:امیر سیف الدین لاچین اور نانا کا نام عمادالملک ہے۔آپ کے والدِ بزرگوار ”بلخ” کے سرداروں میں سے تھے۔ہندوستان میں ہجرت کرکے آئے اور شاہی دربار سے منسلک ہوگئے۔آپ کے والد اور نانا اپنے وقت کے عظیم بزرگ تھے۔آپ 653ھ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم سے لیکر تمام علوم کی تحصیل و تکمیل اپنے نانا عماد الملک سے کی، جوکہ ایک زبردست عالم تھے، اورآپ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ انہوں نے اپنے نواسے کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ یہانتک کہ آپ نے بہت جلد تمام علوم میں کمال حاصل کیا، اور اپنے وقت کے فضلاء میں شمار ہونے لگے۔
مختلف پہلوئوں سے آپ کی ذات باکمالوں کی صف میں صدر نشیں پائی جاتی ہے۔ ”اگر صوفی کی حیثت سے دیکھو تو فانی فی اللہ، ندیم کی حیثیت سے دیکھو تو ارسطوئِ زمانہ، عالم کی حیثیت سے دیکھو تو متبحّر علامہ، موسیقی کی حیثیت سے دیکھو تو امام المجتہد، مؤرخ کی حیثیت سے دیکھو تو بینظیر محقق، شاعر کی حیثیت سے دیکھو تو ملک الشعراء۔ ان کے ہر کمال کا دامن نہایت وسیع ہے اور اپنے بیان میں نہایت طوالت پذیر!
آپ کو خُدا کی وحدانیت پر پورا بھروسہ تھا۔ آپ کے کلام میں جگہ جگہ اس بات کا ثبوت ملتا ہے۔ ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوئے تھے۔وہ سانس بھی لیتے تو اُن کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ عشق کی چھُری اُن کے قلب و جگر میں پیوست ہورہی ہے۔ آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت، سادگی، تسلیم و رضا ادب و احترام ہے۔ وہ کبھی بے ادب ہوتے ہیں اور نہ گستاخ۔ نادر تشبیہات، والہانہ جذبات، لطافت ِ زبان و بیان اور شیریں کلام، فلسفیانہ، حکیمانہ اور صوفیانہ افکار۔ آپ کی شاعری کے مخصوص رنگ ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شاعری سے اپنے ہم وطنوں کو حُب الوطنی کا درس دیا ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اپنی شاعری سے آدمیت کو انسانیت کا درس دیا اور اُن کی تعلیمات اور پیغام میں آپسی بھائی چارہ، زہد و تقویٰ اور خدمت خلق کا درس بھی موجود ہے۔
آپ نے کئی حکیمانہ اور فلسفیانہ اقوال بھی کہے ہیں۔ آپ کا ایک مشہور قول اس طرح ہے: آپ فرماتے ہیں: پُھول سو پردوں میں بھی پوشیدہ ہو تو اپنی خوشبو کی وجہ سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا مشہور قول اخبارالاخبار کے مطابق اس طرح ہے کہ :خُدا اُن کو دوست رکھتا ہے جن میں سخاوت دریا کی سی، شفقت آفتاب کی سی اور تواضع زمین کی سی ہو۔ اور اپنے جانشینوں اور مُریدوں کو اس طرح نصیحت فرماتے تھے کہ ’’جو تمہارے ساتھ کوئی دشمنی کرے تم اُس سے دوستی کا برتاؤ کرو اور کسی کو تکلیف نہ دینا۔
آپ نے طویل عمر پائی اور اپنی ساری زندگی زہد و تقویٰ، خدمت خلق، خود داری اور اُردو زبان و ادب، تہذیب، اعلیٰ علمی روایات اور شاعری کو پروان چڑھانے میں صرف کردی ہے۔ آپ کے شاگردوں، دوستوں اور اُن کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے جس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ آپ ’’سلطان اور سیاست‘‘ سے بھی وابستہ رہے اور کئی عوامی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ نے گیارہ بادشاہوں کا دورِ حکمرانی دیکھا اور سات بادشاہوں کی ملازمت میں رہے۔ سبھی حکمران آپ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے۔ آپ نے ادب اور شاعری کے علاوہ سماجی زندگی میں مشترکہ روایات اور جذباتی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
آپ کواپنے پیر و مُرشد محبوب الٰہی سے بے انتہا عقیدت اور محبت تھی اور پیر و مُرشد بھی آپ پر نہایت درجہ شفیق اور عنایت کنندہ تھے۔پیر و مُرشد کی خدمت اور حضور میں اور کسی کو اتنی رازداری اور قربت حاصل نہ تھی جتنی آپ کو تھی۔ایک دن پیر و مُرشد نے آپ سے دریافت کیا: اے ترک! تمہاری مشغولیات کا کیا حال ہے؟ عرض کیا :یاسیدی! رات کے آخری حصہ میں اکثر و بیشتر آہ و بکا اور گریہ و زاری کا غلبہ رہتا ہے۔شیخ نے فرمایا! الحمدللہ کچھ اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ایک مرتبہ پیر و مُرشد نے آپ سے اللہ کو درمیان میں رکھ کر یہ وعدہ فرمایا تھا :کہ جب جنت میں جائیں گے تو تجھے بھی ان شاء اللہ عزوجل ساتھ لیکر جائیں گے۔
آپ پیر و مُرشد کی جلوت و خلوت کے ساتھی اور رازداں تھے جب کسی کو پیر و مُرشد کے آرام اور خلوت میں حاضری کی اجازت نہ تھی تو صرف آپ ہی اس سے مستثنیٰ تھے۔ مرشد اور مرید کی روحانی محبت اور کمال درجہ عشق کی ایسی مثال اور نظیر کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔
مصنف سیر الاولیاء کے مطابق حضرت امیر خسرو کو حضرت محبوب الٰہی نے ’’ترک اللہ‘‘ کا خطاب ایک کاغذ پر لکھ کر دیا تھا اور حضرت امیر خسرو نے اسے تعویذ بنا کر رکھا ہوا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اس تعویذ کو ان کی لحد میں رکھ دیا جائے کیونکہ اس بدولت قیامت میں ان کی بخشش ہو گی۔
حضرت محبوب الٰہی آپ سے فرمایا کرتے کہ میرے لئے دعا کرو کیونکہ تمہاری بقا میرے اوپر منحصر ہے، میری بقا کے لئے تمہیں میرے پہلو میں دفن کرنا چاہئے۔ حضرت محبوب الٰہی فرمایا کرتے کہ روز قیامت جب مجھ سے سوال ہو گا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لائے ہو؟ تو میں جواب دوں گا کہ’’ ترک اللہ‘‘ کا سوز سینہ۔
حضرت امیر خسروحضرت محبوب الٰہی کے وصال کے وقت سلطان محمد تغلق کے ہمراہ بنگالہ کی مہم پر تھے۔ وہاں اچانک دل کی عجب حالت ہوئی اور دہلی پہنچے اور یہاں وہ المناک اور دلفگار خبر ملی کہ حضرت محبوب الٰہی اس دنیا میں نہیں رہے۔ آپ اپنے محبوب مرشد کے حضور پہنچے، سر ٹکرا کر چیخ ماری کہ سبحان اللہ! کہ آفتاب تو زیر زمیں محو خواب ہے اور خسرو ابھی تک زندہ ہے۔ اس موقع پر حضرت آپ نے وہ شہرہ آفاق ہندی دوہا پڑھا۔
گوری سوئے سیج پہ مکھ پہ ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے شام بھئی چودیس
(میرے محبوب مرشد جو گیسو دراز تھے اپنے خوبصورت بالوں سے منہ ڈھانپے محو خواب ہیں۔ اے خسرو! تو بھی اب اپنے اصلی گھر چل کیونکہ شام کی تاریکی ہر طرف پھیل گئی ہے۔)
آپ حضرت محبوب الٰہی کے وصال کے بعد کہا کرتے کہ اے مسلمان میں کون ہوں کہ ایسے بادشاہ کیلئے روئوں، میں تو اپنے لیے روتا ہوں کہ سلطان المشائخ کے بعد میری زندگی کی بقا زیادہ نہیں اس کے چھ مہینے اور زندہ رہے اور 18شوال المکرم 725 ھ کودارفانی سے دار بقا کو روانہ ہوگئے۔آپ کے جسدِ خاکی کو ہزاروں سوگواروں کے بیچ اپنے پیر و مُرشد کے بائیں جانب پرانی دہلی میں سپرد لحد کردیا گیا۔
ماخذ و مراجع:مقدمہ مثنوی ہشت بہشت، اخبارالاخیار، سیرالاولیاء۔