تحریر:میر غلام حسن
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔اس میں زندگی گزارنے کا پورا پورا نظام موجود ہے اور اسی دین میں زندگی کی کامیابی کا راز موجود ہے ۔اسلام کے چند اہم اراکین ہیں جن میں حج ایک اہم رکن ہے۔جب کہ نماز ،روزہ ،زکوٰۃ بھی اہم عبادات ہیں اور یہ عبادات انسان کی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈالتی ہیں ۔حج اسلام کی فرض عبادتوں میںسے ایک اہم فرض عبادت ہے۔حج کے معنیٰ عربی زبان میں زیارت کا قصد کرنے کے ہیں ۔حج میں ہر طرف سے لوگ اللہ کے گھر (خانہ کعبہ )کی زیارت کا قصد کرتے ہیں ۔اس لئے اس کا نام حج رکھا گیا ۔حضرت ابراہیم ؑ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو خود پجاریوں کا گھرانہ تھا ۔ان کے باپ خود بھی بت پرست تھے ۔حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم کے مطابق توحید کا اعلان کیا جس کے نتیجے مین ان کا پہلا مخالف ان کا اپنا ہی باپ بن گیا ۔لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے بڑی ہمت اور حوصلہ مندی سے کام لیا اور وہ یکتا و تنہا انسان سب کے مقابلہ میں سچائی کی طرف کھڑا ہو گیا ۔مخالفین حق نے ان کو گھر سے بے گھر کیا اور آپؑ کو ہجرت کرنا پڑی ۔یوں تو حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت اور زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ؑ نے پوری زندگی کے دوران غلبہ حق کے لئے جدوجہد کی ۔اخیر عمر میںاللہ تعالٰی نے آپ ؑ کو اولاد عطا کی ۔اس سٹیج پر بھی آپ ؑ کو یہ فکر نہ ہوئی کہ کم از کم اپنے بچوں ہی کو دنیا کمانے کے قابل بناؤں بلکہ انہیں صرف فکر تو یہ تھی کہ جس مشن کو پھیلانے میں خود اس نے اپنی عمر کھپادی تھی ،کاش کوئی ایسا ہو جو ان کے بعد بھی اس مشن کو پھیلاتا رہے۔اصل میں حضرت ابراہیم ؑ ایک سچا اور مخلص مسلمان تھا اس نے اپنے رب کو پہچانا تھا ۔اس لئے جب اللہ نے انھیں اولاد عطا کی اور پھر اسی رب نے انھیں اشارہ کیا کہ اپنے اس اکلوتے بیٹے کو قربان کر ڈولو تو اشارہ پاتے ہی وہ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے ۔تب اللہ نے آپ کو ساری دنیا کا امام بنایا ۔مطلب صاف ہے کہ قوموں کی امامت وہی کرسکتا ہے جو خود اس کا اہل ہو ۔نااہل کسی قوم کی امامت نہیںکر سکتا ہے ۔فاسق اور فاجر کو حق نہیں ہے کہ وہ امامت کا دعویدار بنے ۔بلکہ امامت بھی اسی کی تسلیم کی جائے جس میں اہلیت ہو ۔حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ نے اسلام کی عالمگیر تحریک کا لیڈر مقرر کیا ۔تعمیر کعبہ مین حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ نے اہم رول ادا کیا اور یہی کعبہ اسلامی تحریک کا مرکز ہے جو ساری دنیا میں ااج بھی مشہور ہے ۔اللہ تعالیٰ کے گھر کا مقصد یہ ہے کہ ایک خدا کو ماننے والے ہر جگہ سے کھینچ کھینچ کر یہاں جمع ہوا کریں ،بلکہ خدا کی عبادت کریں اور اسلام کا پیغام لے کر پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں ۔یہی اجتماع تھا جس کا نام ’’حج ‘‘ رکھا گیا ۔اس کی پوری تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’جو شخص زادــ راہ اور سواری رکھتا ہو ‘‘جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اور پھر حج نہ کرے تو اس کا یہودی یا انصرانی ہو کر مرنا یکساں ہے ۔جب کہ نبی ﷺ ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج کرنے سے روکا ہو ،نہ کسی ظالم سلطان ،نہ کسی روکنے والے نے ،نہ ہی کسی مرض نے اور پھر اس نے حج نہ کیا اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرجائے یا انصرانی بن کر ۔اسی کی تفسیر حضرت عمرؓ نے کی کہ ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کریں ‘‘میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگادوں ۔وہ مسلمان نہیں ہیں ،وہ مسلمان نہیں ہیں ۔اس طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے ہر اس مسلمان کے لئے جو کعبے تک جانے آنے کا خرچ رکھتا ہو اور ہا تھ سے معذور نہ ہو۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق روایت ہے کہ جب تک انہوں نے حج نہ کیا تھا انہیں اس معاملہ میں تردّد تھا کہ اسلامی عبادات میں سب سے افضل کون سی عبادت ہے ۔ مگر جب انہوں نے خود حج کر کے ان بے حدو حساب فائدوں کو دیکھا جو اس عبادت میں پوشیدہ ہیں ، تو بے تامُل پکار اٹھے کہ یقینا حج سب سے افضل ہے ۔حج کا زمانہ روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے ۔ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم ہے حج کے دوران دنیا کے مختلف اطراف سے اللہ کے بندے اس گھر کی زیارت کے لئے آتے ہیں ان پر اللہ کی اطاعت اور بندگی کا ایک ہی نشان لگا ہوا ہوتا ہے ، ایک ہی وفاداری کے رشتے میں یہ سب بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور سب ایک ہی احرام لگائے ہوئے ہوتے ہیں ، سب کا ایک امام ، سب کی ایک حرکت ، سب کی ایک ہی زبان ، سب ایک ہی اللہ اکبر کے ہی اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع و سجود کرتے ہیں ۔ خدا پرستوں کی یہ عالمگیر جماعت بتاتی ہے کہ کائنات کا ایک ہی خدا ہے ۔ یہ جماعت آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی پوری دنیا کو پیغام دیتی ہے کہ سکون صرف خدا کو یاد کرنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔