تحریر:معین الدین چودھری
ہمارے معاشرے میں پچھلے کئی سالوں سے جو خرابیاں پیدا ہورہی ہیں وہ دیکھنے والوں کو بڑا حیران کردیتی ہیں ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسانی اقدار کی سختی سے قدر کی جاتی تھی تیزی سے برائیاں پھیل رہی ہیں ۔ تہذیب اور شائستگی کو فرسودگی سے جوڑ کر تمام اقدار کو روندا جارہاہے ۔ اس دوران آگے بڑھنے اور دولت کمانے کے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں جو دین سے میل کھاتے ہیں نہ ہماری روایات سے کوئی میل رکھتی ہیں ۔ ایک ایسے زمانے میں جبکہ لوگ تعلیم سے آراستہ نہ تھے ۔ قدامت پرستی کو اپنا رویہ بنائے ہوئے تھے اور دین کی بنیادی باتوں سے بھی کوئی واقفیت نہیں رکھتے تھے ۔ پھر بھی سختی سے حلال و حرام میں تمیز کرتے تھے ۔ اپنے اور پرائے کا فرق جانتے ہیں ۔ ایک دوسرے کا ادب کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے ۔ نشہ آور اشیا سے کوسوں دور رہتے تھے ۔ بڑی حیران کن بات ہے کہ جب سے دین کا علم تیزی سے پھیلنے لگا ۔ وعظ و نصیحت کی مجلسیں منعقد ہونے لگیں ۔ علما کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ۔ برائیاں بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلنے لگیں ۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا ۔ یہاں تک کہ منشیات کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت میں کئی گنا اضافہ ہونے لگا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی بستی ایسی نہیں جہاں اسلامی مدارس قائم نہ ہوں ۔ جہاں کئی درجن مبلغ موجود نہ ہوں ۔ جہاں ہر صبح و شام دین کی بات نہ ہوتی ہو ۔ جہاں اسلام کے شیدائی گشت نہ لگاتے ہوں ۔ البتہ کوئی ایسا گھر نہیں بچا ہے جہاں منشیات کا عمل دخل نہ ہو ۔ اس تضاد نے ہمارے معاشرے کو دین کا بنادیا ہے نہ دنیا کا رکھا ہے ۔ دین بھی تباہ اور دنیا بھی برباد ہورہی ہے ۔ دین و دنیا کے اس تصادم سے پوری زندگی شکست و ریخت کی شکار ہے ۔
منشیات کے حوالے سے اسلام کی ہدایات واضح ہیں ۔ اس کا استعمال جائز ہے نہ ایسا کاروبار کرنے کی اجازت ہے ۔ اس موضوع پر قرآنی آیات ، احادیث نبوی ؐ اور شرعی ہدایات موجود ہیں ۔ اس موضوع پر پچھلے پندرہ سو سالوں سے برابر وعظ و تبلیغ ہورہی ہے ۔ اس کے علاوہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایسا شغل رکھنے والوں کی دنیا کبھی بھی پائیدار نہیں رہی ہے ۔ نشہ آور اشیا سے وقتی سہارا ضرور ملتا ہے ۔ لیکن آخر کار انسانی صحت ، دنیاوی ساکھ اور اخروی نتائج کے لئے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ۔ ایسی اشیا کا استعمال اور کاروبار دینی اور قانونی اعتبار سے ناجائز عمل ہے ۔ بلکہ نتائج کے لحاظ سے بھی تباہ کن ہے ۔ اس کے باوجود لوگ اس لت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتے ہیں ۔ دینی مبلغوں کی اس کے خلاف وعظ و نصیحت کی ناکامی کے بعد سرکار نے بڑے پیمانے پر اس کی بیخ کنی کے لئے مہم شروع کی ہے ۔ بھنگ اور خشخاش کی فصل کو کاٹنے کے علاوہ اس کے کاروبار پر روک لگانے اور منشیات سے نجات کے طبی مراکز بھی قائم کئے ہیں ۔ لیکن تاحال اطمینان بخش نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ منشیات کا استعمال اور اس کا کاروبار اب تک موجود ہے ۔ دینی مبلغ کیسا بھی دعویٰ کریں اور سرکاری ادارے کتنا بھی زور لگائیں ایسی سرگرمیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں ۔سرکاری اہلکاروں نے بڑے پیمانے پر بھنگ اور خشخاش کی کاشت ختم کرنے کی مہم چلائی ۔ کئی سو کنال زمین پر ایسی فصلوں کو تباہ کیا گیا ۔ یہ سرگرمیاں اپنی جگہ ۔ لیکن منشیات کے عادی لوگ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ایسی سرگرمیوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ سخت بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے ۔ لگتا ہے کہ اس کی تباہی یقینی ہے ۔ معاشرے اس طرح سے کھوکھلے اور بوسیدہ ہوکر از خود گرجاتے ہیں ۔ پھر یہ کھڑا نہ ہونے کی سکت کھودیتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ بگاڑ کے جس مرحلے تک پہنچ چکا ہے وہاں اس کو سہارا دینا ممکن نہیں ہے ۔ ایک ایسا معاشرہ جو بہ ظاہر دینی اور اسلامی معاشرہ مانا جاتا ہے منشیات کے استعمال اور اس کے کاروبار میں بہت آگے بڑھ چکا ہے ۔ یہاں تک دبائو ڈال کر اور سختیاں کرنے کے بعد بھی یہ ایسی سرگرمیوں سے باز نہیں آتا ہے ۔اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ دین کے احکامات بھی اس پر اثر انداز نہیں ہورہے ہیں ۔ لوگ جرمانہ ادا کرنے کو تیار ہیں ۔ جیل کاٹنے پر آمادہ ہیں ۔ آخرت برباد کرنے کے روا دار ہیں ۔ لیکن منشیات کے استعمال اور اس کے کاروبار کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منشیات کی اس لعنت نے ہمارے معاشرے پر گرفت کس قدر مضبوط بنائی ہوئی ہے ۔ روگردانی کی اس سے بڑی کوئی حد نہیں ہوسکتی ہے ۔اسلام زندہ باد بھی اسلام سے بغاوت بھی ۔ قرآن کی درسگاہیں بھی اور قرآن سے بغاوت بھی ۔ دین سے محبت بھی اور دین سے روگردانی بھی ۔ فلاحی ادارے بھی اور سماجی اقدار سے دوری بھی ۔ یہ ایسا تضاد ہے جو کسی دوسرے میں نظر نہیں آتا ۔ اس تضاد کو ختم کرنے کے لئے سرکاری اداروں پر تکیہ کرنا بڑی غلطی ہے ۔ حساس اور زندہ دل طبقے کو سامنے آکر اس طرح کی دو رخی کو ختم کرنا ہوگا ۔ اس کام کو خدایا سرکار کے حوالے کرکے اپنی ذمہ داری کو پس پشت ڈالنا آگے جاکر تباہ کن ثابت ہوگا ۔ اس وجہ سے جو بیماریاں پروان چڑھ رہی ہیں بعد میں ان کا علاج تلاش کرنا ممکن نہ ہوگا ۔