تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
اسلامی عبادات آہستہ آہستہ نیا اور جدید طرز اختیار کررہی ہیں ۔ نماز کے لئے پہلے میقات الصلوات تیار ہوکر آیا اور ہر مسجد میں آویزان کیا گیا ۔روایتی انداز میں نماز کا تعین فرسودہ قرار دیا جانے لگا اور مختلف اداروں کی طرف سے تیار کئے گئے نقشے نماز کے اوقات کا حتمی طریقہ بن گئے ۔ اب ڈیجیٹل بورڈ آگئے ہیں جو خود کار طریقے سے نماز کا وقت دکھاتے ہیں ۔ میقات الصلوات غائب ہوکر ڈیجیٹل بورڈ نماز کا نقشہ اور کتاب موقوت بن رہے ہیں ۔ ایسے بورڈ وقت مقررہ پر گھنٹی بجاتے ہیں اور نماز اسی گھنٹی پر قائم ہوتی ہے ۔ گھنٹی بجتے ہی امام اور مقتدی صفوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ روزوں کے لئے چاند کا تعین جدید آلات کی مدد سے تاحال ناجائز اور خلاف شریعت ہے ۔ لیکن سحری اور افطاری کا تعین سائنسی اور تکنیکی آلات کی مدد سے کیا جاتا ہے ۔ نماز اور روزوں کے لئے وقت کا تعین شمسی نظام کے حساب سے ہوتا ہے ۔ یہ قید شریعت نے ہی مقرر کی ہے ۔ پورا شمسی نظام ہی ڈیجیٹل ہوگیا ہے ۔ اس وجہ سے نماز اور ورزوں کے لئے وقت بھی اسی حساب سے مقرر ہوتا ہے ۔ حج تو کئی سال پہلے ہی ڈیجیٹل نظام کے تابع ہے ۔ قرہ اندازی پرانے طریقے سے نہیں ہوتی جہاں پرچیاں لکھی جاتی تھیں ۔ پھر جس کی پرچی اٹھتی وہی حج کے لئے عازم بن جاتا ۔ لیکن اب قرہ اندازی بھی کمپیوٹر کے ذریعے ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ سفر کا سارا انتظام اسی نئے نظام کے تحت طے پاتا ہے ۔ بلکہ بیشتر حج سرگرمیاں ڈیجیٹل طریقے سے ہی ادا ہوتی ہیں ۔ اس درمیان اب عیداور عید کی نماز بھی ڈیجیٹل ہورہی ہے ۔ پہلے عیدنماز جب عید گاہ میں ادا ہوتی تھی تو مقامی اوقاف یا بستی کے معزز افراد مشورہ کرکے لوگوں کی ضرورت اور مناسبت کے مطابق نماز کے وقت کا تعین کرتے تھے ۔ موسم کی خرابی کی صورت میں عید کے موقعے پر نماز بستی کی سب سے بڑی مسجد میں ادا کی جاتی تھی ۔ ایسے میں بھی معزز شہری وقت متعین کرتے تھے ۔ لیکن اب یہ شریعت کے منافی سمجھا جاتا ہے ۔ کسی سے کوئی مشورہ کئے بغیر اور لوگوں کے لئے مناسب وقت کا حساب لگانے کے بجائے کوئی خودساختہ متولی یا مولوی نماز کے لئے وقت کا اعلان کرتا ہے ۔ اس دوران اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ لوگوں کے لئے کون سا ٹائم مناسب رہے گا نہ مقامی آبادی کے احساسات کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ انہیں ایسی سب چیزیں ہائی جیک کرکے کیا کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں سے اچانک عید نماز کے حوالے سے ایک نئی شریعت ایجاد کی گئی اور فجر نماز کے فوراََ بعد عید کی نماز ادا کرنے کا میقات تیار کیا گیا ۔ صبح چھے بجے سے شروع کرکے مختلف بستیوں میں آٹھ بجے تک عید کی نماز اختتام کو پہنچ جاتی ہے ۔ کچھ سال پہلے جب عید پورے مذہبی جوش و خروش کے علاوہ بڑی عقیدت سے منائی جاتی تھی ۔ لوگ جتھوں کی صورت عید گاہ یا مسجد کی طرف جاتے تھے ۔ گھر سے پوری تیاری کرکے نماز ادا کرنے کو نکلتے تھے ۔ لوگ بڑے خوش و خرم ہوتے تھے کہ نماز عید ادا کرنی ہے ۔ لیکن اچانک عید نماز کا یہ سارا اسپرٹ ہی بدل دیا گیا ۔ اب لوگ جیسے عید منانے کے بجائے کسی ماتمی جلسے میں شرکت کے لئے جاتے ہیں ۔ اب عید نماز کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ لوگ جنازے کی نماز کو جارہے ہیں ۔ نہ پہلے جیسا جذبہ اور نہ وہ خوش وخرم چہرے نظر آتے ہیں ۔ عید کا منظر ہے نہ عید کی خوشیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوچار دن گزرنے کے بعد ہی عید یاد رہتی نہ عید سرگرمیاں کہیں ذہن میں رہتی ہیں ۔ ابھی عید کو گزرے ایک ہفتہ بھی نہ ہوا ، لگتا ہے مہینوں گزر گئے ۔
عید منانے کے پیچھے اسلام کا ایک واضح فلسفہ ہے ۔ یہ کوئی قومی یا ملکی تہوار نہیں ۔ کوئی سرکاری یا اداراتی تقریب نہیں کہ اس کو شامیانے کے نیچے یا بند کمرے میں ادا کیا جائے ۔ بلکہ یہ ایک دینی تقریب ہے جس کا ایک فلسفہ ہے ۔ بستی کے مسلمان کسی کھلے عید گاہ میں جاکر تکبیر کہتے ہوئے جمع ہوجائیں ۔ اللہ کی بڑائی بیان کرتے مرکزی مقام پر جمع ہوجائیں ۔ وہاں ایک دوسرے سے ملیں ۔ باہم خوشی کا اظہار کریں ۔ ایک دوسرے سے گلے ملیں اور شکوے شکایات دور کریں ۔ عالمی مسائل کے حوالے سے جانکاری حاصل کریں اور خطبے میں انہیں ان مسائل کے حوالے سے مسلمانوں کا موقف بیان کیا جائے ۔ انہیں بتایا جائے کہ عالمی سرگرمیوں کے امت اسلامی پر کیسے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ مسلمان ہر مسئلے کے حوالے سے اجتماعی سوچ پیدا کریں ۔ عید محض دو رکعت یا قربانی کا گوشت بانٹنے کا نام نہیں ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن پر قربانی واجب نہیں ۔ انہیں کوئی جلدی نہیں کہ صبح منہ اندھیرے عید نماز ادا کریں ۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ عید گاہ جاکر بستی کے خوش و خرم لوگوں سے ملیں ۔ ان کی خوشیوں میں شامل ہوجائیں ۔ اپنے غم ایک دوسرے سے بانٹیں ۔ ہمارے جدید قسم کے مولویوں نے عید کو ان تمام لوازمات سے پاک و صاف کرکے محض ایک Formality بنادیا ہے ۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موسم بہتر ہونے اور عید گاہ میں وسیع جگہ میسر ہونے کے باوجود ہر مولوی اپنی ہی مسجد میں نماز عید ادا کرنے پر زور کیوں دیتا ہے ۔ مولوی حضرات اس کی گنجائش کہاں سے نکالتے ہیں ۔ جب ایسے شریعت مخالف کام کرنے کی گنجائش ہے تو نو دس بجے عید نماز ادا کیوں نہیں کی جاسکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اور پھر خلفائے راشدین کے زمانے میں جس طریقے سے عید منائی جاتی تھی خود ساختہ مولویوں نے اس کا پورا نقشہ ہی الٹ دیا ہے ۔ اپنی مرضی سے شریعت کے اصول و ضوابط مقرر کئے ۔ اس وجہ سے عید باقی رہی نہ عید کا فلسفہ موجود رہا ۔ ڈیجیٹل عید اور ایسی عید کی نماز مولویوں اور متولیوں کی خواہش کی تکمیل ہے نہ کی شریعت کی پابندی ۔ دو رکعت کے بچارے امام ان باتوں سے بے بہرہ ہیں ۔ ان کی عقل بھی اتنی سڑی گلی ہے کہ اس میں عید کا فلسفہ سمانا ممکن نہیں ۔
