
’’یہ چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا‘‘
اب کی پھر ایک بارسویڈش سرکار کے تعاون سے قرآن حکیم کے نسخے جلاکر اور پھر اس کی بے حرمتی کر کے ، دو ارب مسلمانوں کا جگر چیر کر رکھ دیا گیاہے، اور یہ واقع سویڈش دارالحکومت ’’اسٹاک ہوم میں پیش آیا ہے ، اس کے لئے اس شخص جوکہ بظاہر عراقی نژاد اور جس کا نام ’’ سلوان مومیکا بتایا جا تا ہے ، نے خاص طور پر عیدا لضحیٰ کا دن اور جائے مقام بھی ایک بڑی مسجد کے سامنے چن کر سرکاری تعاون اور حمایت سے یہ گھناونی اور مذموم حرکت کر ڈالی ، ایسا بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کے لئے یہاں کی عدلیہ نے پہلے ہی اس سے اجازت مر حمت فر مائی تھی ، ۔ ظاہر ہے کہ ایسی مذموم حرکات کا منشا ہی یہ ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے دل مجروع ہوں ، اور جب اس کا ردِ عمل سامنے آئے تو یہ ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ مسلم لوگ اور عوام دہشت گرد ہیں ، عصری دور میں جب آپ تھوڈا سا ماضی میں جھانکیں گے اور تھوڈا سا حافظے پر زور دیں گے تو آپ کو یاد آئے گا کہ پچھلی دہائیوں کے اندر اس طرح کی بے شمار گستاخانہ حرکتیں ہوئی ہیںجن کی وجہ سے یاتوقرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے یا صاحب قرآن ﷺکی شان اقدس میں گستاخیاں ہوئی ہیںجو کہ ان مغربی ممالک کے اپنے قوانین کی رو سے بھی ایک ناقابل معافی جرم کا ارتکاب ہے ، لیکن افسوس کہ یہ ممالک ان قوانیں اور ساری دنیا میں تسلیم شدہ بہتر اقدار اور معیارات کی خلاف ورز یوںکے مواقع پر اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں اور ان تمام نازیبا اور دل آزار مکروہ منصوبہ بند سازشوں کو آزادی رائے سے تشبیہ دے کر مسلم دنیا کے خلاف میڈیا کی جنگ چھیڑ دیتے ہیں بلکہ مسلسل ایک کے بعد ایک نیامحاظ کھولتے رہتے ہیں ۔ در اصل نائن الیون کے بعد امریکی سر پرستی میں ایسے واقعات میں سبک رفتاری پیدا ہوچکی ہے ، امریکی چنل فاکس نیوز پر ۱۸ ستمبر ۲۰۰۲ کو ایک جنونی مذہبی رہنما جیری فال فوئل نے انتہائی گستاخانہ الفاظ دہرائے تھے ، اس کے بعد امریکی ریاست ہوسٹن میں ایک خصوصی فلم سینما گھروں میں دکھائی گئی تھی جو حضور دو عالم ﷺ کی ازدواجی زندگی پر مبنی ، توہین آمیز تھی ، ۲۰۰۴ میں ہالینڈ کے ایک اور فلمساز تھیون واں گو نے دس منٹ کی ایک ڈاکو منٹری فلم کی نمائش کی جو شان رسول ﷺ میں گستاخی تھی اور اس فلمساز کو محمد بیوری ایک نوجوان نے ایمسٹرم ڈم میں کیفر کردار تک پہنچایا تھا ، نائن الیون کے بعد سے اگر ان سارے واقعات کی تفصیل لکھی جائے تو ایک بڑی ضخیم کتاب بن جائے گی ۔اور ان ملعونوں میں پچھلی دو دہائیوں میں نام نہاد مسلم نژاد کچھ نام بھی شامل ہوئے جن میں سلمان رشدی ، تسنیمہ نسرین اور کئی نام ہیں جنہیں مغرب نے سونے میں تولا ہے ۔ فرانس کے سموئل پیٹی ایک استاد نے شان رسولﷺ میں گستاخی کا ارتکاب کیا اوران گستاخانہ کارٹونوں کی نمائش کی جن پر ڈنمارک اور یورپی حواریوں کے خلاف مسلم دنیا نے احتجاج کیا تھا اس بار اس واقعے کی نوعیت اس بات نے بدل دی کہ اس گستاخِ رسولﷺ کا سر ایک مسلم لڑکے نے فی الفور قلم کیا اور اس طرح اس گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچایا بہر حال ہمیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سب کیوں اور کس لئے ہو رہا ہے ؟مقاصد بہت ہی واضح ہیں اور جس تسلسل کے ساتھ ایسے حادثات رونما ہوتے رہے ہیں وہ ایک منصوبہ بند اور منظم طریق کار کی نشاندہی کرتے ہیں ، ،در اصل یہ طرز عمل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اہل یہود یہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ نبی برحق ہیں اور یہی وہ آخری نبی ہیں جن کی بشارت تورات ، انجیل اور بائبل میں واضح دی گئی ہے لیکن ، حضرت اسحاق کی نسل سے ہی سارے نبی اور رسول آتے چلے گئے تھے ، اس لئے یہ بات ان کے لئے ناقابل قبول تھی اور ہے کہ اتنی بڑی شان والا ، آخری اور تمام نبیوں کا سردار اسماعیلی نسب سے پیدا ہو ، دوسری بات یہ کہ اہل یہود شروع سے ہی نسلی امتیاز میں مبتلا ہیں اور اپنے آپ کو ایک بر گزیدہ اور اللہ کی چہتی اور پسندیدہ قوم کے طور تسلیم کرتے اور مانتے ہیں۔ یہ دوباتیں آج بھی انہیں حق سمجھنے سے محروم کئے ہوئے ہیں ، آج بھی اہل یہود کے لئے یہی بات ناقابل قبول ہے جو چودہ سو برس پہلے تھی ، ،،، یہ جو آج گستاخیاں ایک منصوبے ا ور مکمل منظم طور پر اہل یورپ آزمارہے ہیں وہی صدیوں پہلے کی سوچ و اپروچ ہے جو رسالت مآب ﷺ کی اصل سیرت کو چھپاکر نت نئی من گھڑت ا صطلاحیں جیسے جادو گر ، مجنون ، اور اس جیسے دوسرے الفاظ کا استعمال کرکے نبی ﷺ کی شبیہہ بگاڈنے کی کوششیں دن رات کیا کرتے تھے اور آج اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہلانے والے یہ ممالک بلکل اسی سوچ و فکر اور وہی عزائم اور اہداف رکھتے ہوئے ان نئے طور و طریقوں سے وہی کارنامہ انجام دینے کی کوشش میں اللہ کی سزا کے مستحق ہورہے ہیں ، اسی سیاق و سباق میں پہلے ہی اللہ نے واضح کر دیا تھا ( پس، آپ ﷺ اس سے کھول کر بیان کیجئے اور ان مشرکین کی پروا نہ کیجئے ، ہم مذاق اڑانے والوں سے نمٹنے کے لئے کافی ہیں ،،( الحجر ۹۴، ۹۵) ) ،،اہل یورپ ، صدیوں سے اس ایک ہدف کو پانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکا رہیں ، اس کے لئے یورپ اور ان کے ساتھ اہل مشرک و یورپ بہت بڑے محاظ کھولے ہوئے اہل ایمان کی استقامت اور صبر کو آزمارہے ہیں ، یہ لوگ اب تک اس منزل کو پانے کے لئے لاکھوں اور کروڈوں بے گناہوں کا لہو بہا چکے ہیں ، اور اپنے میڈیا، ٹیکنالوجی ، عسکری قوت اور سرمایہ کی بنیادوں پر انہیں لگتا ہے کہ وہ اس سازش اور ناپاک منصوبے میں کامیاب ہوں گے ، ، ان منصوبوں کے پیچھے جو عزائم ہیں انہیں اس دور کے مسلم نوجواں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ،ان مقاصد میں اولین یہ ہے کہ تعلیم کے لبادے میں مسلم دنیا کو قرآن حکیم کی تعلیمات سے دور رکھا جائے ، اور دوئم یہ کہ صاحب قرآن کی محبت اور ان کے ذات اقدس سے والہانہ عشق کو ختم کیا جائے ، سوئم یہ کہ پروپگنڈا اور میڈیا کی قوت کا استعمال کرکے اہل ایمان کے دل و دماغ کو برین واش کرکے ذات اقدس ﷺ کے قدو قامت کو گٹھایا جائے اور اس میں آخری یہ کہ اہل اسلام پر دہشت گردی کی لیبل لگا کر انہیں پشت بہ دیوار کیا جائے ، بظاہر اس دور کے حالات کا جائزہ لینے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یورپی اقوام ، اہل یہود و اہل ہنود بڑی حد تک ان اہداف کو پانے میں کامیاب نظر آتے ہیں ،کیونکہ وہ اس نقطے پر متحد ہیں ۔ اور مسلم دنیا میں کوئی ایسی موثر آواز اور ایسا فورم یا ملک نہیں جو کفر کی ان اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ کرنے کا اہل ہو ، لیکن اس کے باوجود اب بھی مسلم دنیا نہ صرف سراپا احتجاج بن جاتی ہے بلکہ اہل ایمان اور جن کے دلوں میں عشق رسول ﷺ موجزن ہے اپنی جانوں کا نذرانہ شمع رسالت پر پروانہ وار نثار کرنے میں کو ئی ہچکچاہت اورکسی تذبذب کا شکار نہیں ، مسلم عوام کے سینوں میں اب بھی عشق رسول ﷺ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر موجود ہیں لیکن مسلم دنیا کے سربراہان اور وقت کے حکمران اپنی مصلحت کوشی اپنے اقتدار اور اپنی بادشاہتوں کو بر قرار رکھنے کی تگ و دو میں ان بڑی طاقتوں کے سامنے غلامانہ طرز عمل کے لئے مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ ممالک وقفے وقفے سے منظم اور منصوبہ بند طریقوں سے شان اقدس ﷺ میں گستاخیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ، اب کے عراق میں سویڈش سفارت خانے کے باہر زبردست احتجاج ہوا ، بغداد میں وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ حادثات دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروع اور مشتعل کرتے ہیں اور خطر ناک اکساوے کی نمائیندگی کرتے ہیں ‘‘قاہرہ میں واقع اسلامی لیگ نے اس مذموم واقعے کو اسلامی اعتقاد کی بنیاد پر حملہ قرار دیا ہے ‘‘ایران کے سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ اس اقدام نے نہ صرف دو ارب مسلمانوں بلکہ تمام آسمانی مذاہب کے لوگوں کے جذبات کو مجروع کیا ہے ، ،روس کے صدر پیوتن نے اس مذموم حرکت کی مذمت کی ہے ،۔ لیکن اس سب کے باوجود بار بار ایسے واقعات کا وقوع پذیر ہوناامتِ مسلمہ کی اپنی کمزوری اور ناتوانی کا اظہار اور رد عمل ہے ،اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ نے وعدہ فرمایاہے کہ وہ خود اپنی کتاب اور صاحب کتاب سے پر خاش رکھنے والوں سے نپٹ لینے کے لئے کافی ہے اس کو یوں بڑی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ نو گیارہ کے بعد اہل یہود و ہنود میں قرآن اور صاحب قرآن کو سمجھنے اور جاننے کی ایک ایسی لہر چلی جو اب تک بھی نہیں تھمی اور ، یہ پریشانی آج بھی اہل یورپ کو ہے ، کہ’’ وہ منصوبے بناتے ہیں اور اللہ بھی اپنے منصوبے رکھتا ہے اور اللہ ہی کے منصوبے ہر حال میں کامیاب ہوتے ہیں‘‘ (القرآن) )
