تحریر:خوشی صدیقی
اپنےبچوں کو تعلیم دینا اس زمانہ میں بہت ضروری فعل ہے۔ بچوں کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ ان كى بہترين تعلیم و تربیت ان کے روشن مستقبل کا ذریعہ ہے۔ بچوں کو تعلیم نہ دی جائے تو انہيں جگہ جگہ پر ہزیمت کا شکار بننا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو اعلی تعلیم دینے کے لئے بہتر تعلیم گاہوں کا سہارا لینا ہوگا اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم اسکول و کالیجز کا انتخاب عمدہ کریں۔ جو قوم اپنی نسلوں کو تعلیم سے محروم رکھتی ہے، اس قوم کی نسلوں کو مشکلات و تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ موجودہ دور میں ہر طرف مخالفین اس تاک میں لگے ہیں کہ کسی طرح دین حنيف اسلام میں تزلزل پیدا کریں تاکہ اس کی نسلیں اپنے اکابر و اسلاف سے نفرت رکھیں۔
تاريخ اسلام یہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں پر ایسا دور بھی آیا ہے جب قوم کے علماء و حکماء ادب و تعلیم کی چاہ میں طرح طرح کی مصائب و آلام برداشت کرتے رہے اور حصول علم کے لئے بہت لمبا سفر طے کیا کرتے تھے۔
آج جدید میڈیکل سائنس، حساب اور دیگر بہت سے علمی میدان میں استعمال ہونے والے اصول وقواعد مفکرین اسلام کی عطا کردہ ہیں۔ لیکن اب وہ اصول و فروعیات ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں کیونکہ وہاں تک ہماری رسائی نہیں ۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے موجد کون ہیں ۔ اگر تھوڑی بہت رسائی ہے بھی تو ہماری نسلیں ان اصول و قواعد تک کما حقہ نہیں پہنچ سکیں۔ رب عزوجل کی عطا کردہ نعمت کی ہم نے اس قدر ناشکری کی کہ ہم علم کی اس عظيم دولت سے دور ہوتے چلے گئے ۔
انسانی فطرت کو رب تعالی نے متعدد خوبیوں سے نوازا ہے کہ انسانی جبلت محدود شی پر رکی نہیں رہتى۔ وہ ہمیشہ خوب سےخوب ترقی کی تلاش میں لگی رہتى ہے۔ انسان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہتى ہے کہ کس طرح سماج میں اپنی عزت بلند کی جائے خواہ اسے حاصل کرنے میں کسی بھی حد تک جانا پڑے۔ لیکن یہ ترقی اور عروج بغیر علم و تعلیم کے نا ممکن ہے۔
لیکن اس کے باوجود آج بھی ہم مسلمان تعلیم کی اہمیت و افادیت سے لا پرواہ ہیں۔ متعدد رپورٹ یہ بتاتے ہیں کہ مسلم معاشرہ عصری اور تکنیکی علوم حاصل کر تو رہی ہے لیکن ان کی رفتار اتنی سست ہے کہ اس میں اب بھی دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔
عصری تعلیم کے اسکالر مواد کی تحقیق کی بجائے اس کے تراجم پر زیادہ دھیان دے رہی ہے جس کا فائدہ نظر نہیں آ رہا ہے۔آج والدین کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنےبچوں کی تعلیم کے تعلق سے فکرمند ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی خوب کریں تاکہ ان کے اندر محنت کرنے کا جذبہ ہو اور وہ پھر آگے بڑھ کر ملک کی رہنمائ و دیگر اہم افعال کو انجام دے سکیں ۔
امت مسلمہ ہونے کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کو اپنے معاشرے میں فروغ دیں تاکہ ہمارا معاشرہ اور سماج آگے بڑھ سکے ۔
ایک صالح اور خوشحال معاشرےکے لیے عصری اور دینی علوم دونوں کو حاصل کرنا لازمی ہے ۔ہمیں اپنےبچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دینا بھی بےحد ضروری ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ بہتر اسکول اور بہترين اساتذہ بھی ہیں۔
ہم اپنےبچوں کا اسکول اور کالیجز میں داخلہ تو کروا دیتے ہیں لیکن اس میں لا پرواہی بھی کر جاتے ہیں۔ ہماری سوچ تو یہ رہتى ہے کہ ہماری اولاد اعلی اسکول و کالیجز میں پڑھ رہے ہیں لیکن ہم اپنے بچوں پر خود نظر نہیں کرتے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کتنی توجہ اپنی تعلیم پر دے رہے ہیں ۔ان کی تعلیم کس طرح ہو رہی ہے ، ہمیں اس بات کی بالکل فکر نہیں ہوتی ۔ کیا وہ ہوم ورک کر رہے ہیں یا نہیں ؟ وہ کس سے مل رہے ہیں اور کس طرح کا اخلاق اپنا رہے ہیں ؟ ان سب چیزوں سے اکثر ہم غافل ہوتے ہیں ۔ہمیں اپنےبچوں کی عادات و اعمال پر نظر رکھنی چاہیے۔ ان کے آپسی تعلقات اور دینی اور اخلاقی عادات و معاملات کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے کیونکہ بچوں کے اخلاق و عادت پر عدم توجہ کرنے سے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اپنے بچوں کو اعلی تعلیم سے آراستہ کرنا اور ان کا مستقبل روشن و تابناک بنانا والدین کا اہم فریضہ ہے۔ہماری ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس طرف متوجہ کریں ان کو تعلیم کے متعلق ترغیب دلائیں تاکہ بچے تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک کی خدمات کریں۔
موجودہ زمانہ میں ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ بغیر تحقیق کے ہم اپنےبچوں کو غیر معیاری اسکول میں ایڈمیشن کروادیتے ہیں پھر اپنی ذاتی مصروفیات میں اس قدر مشغول ہو جاتےہیں کہ پلٹ کر بچوں کی کوئی خبر بھی نہیں لیتے۔
ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ دے دیتےہیں اور کبھی معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ خالص انگریزی کے کچھ الفاظ بول لینے کو تعلیم سمجھ لیتےہیں۔ اگر یہی طالب علم کسی مقابلےمیں اچھےنمبرات وغیره نہیں لا پاتے تو اسے طرح طرح کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ کبهی اتنا بھیانک ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لا تعداد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ مسلم علاقوں میں اسکول کی کمی ہوتی ہے ۔ مسلم لیڈران کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اسکول قائم کریں جہاں مسلم بچوں اور بچیوں کے لیے عصری علوم کے ساتھ دینی علوم کا بھی انتظام ہو سکے ۔ یقینا عصری تعلیم وقت کی ضرورت ہے، اور اگر اس کے ساتھ بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سیکھنے کا موقع مل جائے تو ہمارے لئے بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔ عصری علوم دنیا کے لیے مفید ہیں لیکن دینی علوم اخلاق اور اچھی فکر کے لیے انتہائی ضروری ہے جس کے بغیر ایک صالح مسلم معاشرہ ممکن نہیں ۔اگر بچوں کو صرف عصری علوم پڑھایا جائے اور ان کو دینی علوم سے دور کر دیا جائے تو اسے کے بہت سے نقصانات ہیں ۔ ایک نقصان یہ ہے کہ جب دینی علوم سے بیزار ہوں گے تو دین کے تعلق سے متعدد پروپیگنڈہ کے شکار ہوتے رہیں اور انہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہوگا کہ حق اور باطل میں فرق کیا ہے کیونکہ جب کورے اذہان پر دین سے بے زاری کی لکیریں کھینچ دی جاے تو اس کو درست کرنا بہت مشکل مسئلہ ہے ۔
آپ نبی پاک صلى الله علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺنے غیر مسلم قیدی کو بھی جرمانے کے عوض میں صحابہ کرام کو عبرانی زبان سکھانے کے لئے متعیّن کیا تھا۔ اس طرح کے اقوال سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں حصول تعلیم مىں کوئ پابندی نہیں ہے۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس دور میں لوگوں کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے جس علم کی زیادہ ضرورت ہے اس کے حصول میں دن رات ایک کر دیں اور دینی تعلیم کو زیادہ اہمیت دیں تاکہ آخرت میں رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیونکہ والدین ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنےبچوں کی تعلیم کے تعلق سے بھی سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔
آج ہمارے معاشرے میں بعض لوگ عصری علوم کو حاصل کرتے ہیں تو بعض دینی علوم کو ، جبکہ دونوں علوم کی اہمیت اس قدر مسلم ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا ساتھ چھوڑ کر ہم آج کی اس تیز رفتار اور سائنس و ٹکنالوجی کی دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔نیوز ایچ اسلام
