تحریر:ناصر منصور
شاہد ۔۔اور ۔۔زاہد ۔۔بچپن کے لنگوٹیا یار تھے دونوں دوستوں کی لڑکپن نٹ کھٹ قسم کی تھی اوائل شباب میں کوئی ایسی حسرت چاحت باقی نہ رہی ہوں جو انہوں نے سیر و تفریح میں نہ گزاری ہوں۔ بین شباب کے زمانہ میں ۔۔۔۔شاہد کی رغبت دین و ادب اور علمِ فضل کی دنیا کی جانب مرکوز ہوئی اور مستقل طور طالب علم کی حیثیت سے اپنے آپ کو وقف کردیا۔۔۔۔۔۔ شاہد ۔۔۔نے بین شباب میں انتہائی کوشش کی کہ زاہد میرے دوست کی رغبت بھی دین کی جانب ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن زاہد اپنی مستی میں مست چاحتوں راہتوں و حسرتوں میں مگن دنیا کی رنگینی میں رنگ چکا تھا۔بڑی ہی مشکل سے اوآخر شباب میں درجہ بدرجہ دین کی اور رغبت ہونے لگی۔۔۔۔۔۔ شاہد نے۔۔۔۔ زاہد کی ابتدائی تعليم اللہ کی معرفتِ تخلیق سے دینا چاہا ۔۔۔۔۔۔شاہد جانتے تھے کہ زاہد کی رغبت زیادہ تر دنیا کی رنگینی کی اور ہے ۔۔۔۔ شاہد دور اندیشی اور وقت کی نزاکت کے ساتھ تفکیری ذہانت کے مالک تھے ۔ شاہد خوب جانتے تھے کہ معرفت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کو اس کی نشانیوں میں غور و فکر کے ذریعے دریافت کریں ۔۔۔۔ شاہد نے۔۔۔۔۔زاہد سے کہا میرے پیارے دوست لڑکپن میں ہم خوب سَیر و تفریح سَیر و سیِاحَت پر جایا کرتے تھے ۔اس کا مقصود محض دل بہلاوے کا ہوتا تھا اس کے سوا اور کچھ نہيں ۔ چلو بھائی زاہد۔۔۔۔ آج میں آپ کو جنت کی سیر کرواتا ہوں ۔۔۔۔ زاہد نے اثبات میں سر تو ہلایا …. لیکن ۔۔۔۔زاہد بولا وہ کیسے۔۔۔۔۔شاہد بولے چلو تو سہی کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے اقدام واجب ہے ۔۔۔ زاہد بولے۔۔۔۔ ارے شاہد۔۔۔۔ اقدام تو میں نے ساری عمر کیا لیکن آپ کا یہ خوش فہمی والا جنت مجھے کبھی دکھائی تو نہيں دیا۔ کچھ لمحہ دونوں کے ما بین کہا سنی کے بعد آخر۔۔۔۔ شاہد و زاہد ۔۔۔بادام واری کے دل لبانے والی اور دل کو باغ باغ کرنے والی سرسبز شاداب گلِ گلزار سے منور جنت کو دیکھنے گئے۔خوب سیر کرنے کے بعد۔۔۔ زاہد نے پوچھا۔۔۔۔اے شاہد اس باگ کی سیر تو ہم نے کرلیا لیکن آپ کا جنت تو کہیں نظر نہيں آرہا ۔۔۔ شاہد۔۔۔ دھیمے سے قہقہہ مار کر ہنس پڑے ۔ ارے ناداں یہ دنياوی جنت کا ناقص ماڈل ہے یہاں کا ہر چیز اپنے آپ ناقص ہے جو ایک کامل دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بعد از دنيا کا جنت کتنا کامل ماڈل ہوگا ۔یہ تخليق کی صورت میں خالق کا تعارف ہیں۔۔۔۔ زاہد۔۔۔۔ اچھا یہ بات ہے ۔۔۔۔ شاہد ہاں اور کیا ۔۔۔۔۔ ان لوگوں کی اور دیکھو جو سیر کرنے آئیں ہیں دنیا کی اطراف و اکناف سے بالعموم۔ اور کشمیر کے لوگ بلخصوص اس جنتِ بینظیر میں موسمِ بہار میں لطف اندوزی کا اپنے دل میں فطرت کے باغ لئے ہوے اپنے جزبات و احساسات اور ذہنی تھکان و کوفتگی کو ان لہراتی ہوئی سر سبز پتوں کے نیچے ہلکا کرتے ہیں ۔۔۔ یہ تو تھی ایک محدود جنت ۔کیا کہنا اُس جنت کا جس کی نعمتیں لامحدود ہوگی ۔جو لطف اندوزی کا کامل ماڈل اور اپنے زماں و مکاں کے اعتبار سے ابدی ہوگا ۔کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ دنیا میں محدود جنت کا ماڑل ملنے پر بھی بعد از دنیا کا لامحدود جنت سے مرحوم ہوں۔۔۔