تحریر:ارم نواز خان
ایک ایسا بھی گھرانہ تھا اس راستے میں، جہاں سے میں گزر کے جاتا تھا۔ زندگی نے بہت کچھ دکھایا تھا مگر جو اب دیکھ رہا تھا وہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ بہت سے لوگ اس راستے سے گزرتے تھے مگر کوئی بھی اس گھر کی طرف نہیں جاتا تھا اس وقت گاؤں میں زیادہ تر کچے گھر ہوتے تھے، بارشوں کے موسم میں پانی اندر آتا تھا لیکن جو حالت اس گھر کی تھی وہاں پر کسی اور گھر کی نہیں تھی۔
گھر میں دو کمرے تھے ان میں سے ایک کی دیوار ٹوٹنے والی تھی کیا تمہیں پتہ ہے وہ گھر کس کا تھا نہیں تمہیں کیسے معلوم ہوگا کیوں کہ تم تو یہاں کبھی نہیں آئے ہو اور نہ کبھی یہاں سے گزرے ہو لیکن میں نے ضرور دیکھا ہے مگر اب جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ تم کو دکھاؤں گا اس گھر کے مالک کا نام رشید حسین ہے اور اس کی بیوی کا نام زبیدہ خانم، ان دونوں کی عمر قریب چالیس یا بیالیس سال کی ہے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے
بڑے بیٹے کا نام راشد ہے اس سے چھوٹی لڑکی ہے جس کا نام سے شکیلا ہے اور اسے چھوٹے لڑکے کا نام حیدر ہے۔ راشد اپنے گھر میں سب سے زیادہ بگڑا ہوا ہے اسے ماں اسکول جانے کے لئے کہتی ہے مگر وہ اسکول نہیں جاتا اگر کبھی گھر سے اسکول کے لیے جاتا بھی ہے تو اسکول تک نہیں پہنچتا، کبھی دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے چلا جاتا ہے اور کبھی دوستوں کے ہمراہ بازاروں میں گھومتا رہتا ہے…
ایک دن اسکول سے اس کے گھر پر ایک خط بھیجا گیا جس میں لکھا تھا کہ آپ کا بیٹا اسکول میں نہیں آتا ہے ہم اسے اسکول سے نکال دیں گے وہ ایک مہینے میں صرف تین مرتبہ اسکول آیا ہے اگر یہ ایسا ہی کرتا رہا تو ہم اسے دوبارہ امتحان نہیں دینے دیں گے۔ جب زبیدہ نے اپنے چھوٹے بچے سے یہ خط پڑھایا تو وہ پریشان ہو گئی کہ اب کیا کروں، میں اسے اسکول جانے کے لئے کہتی ہوں مگر اس پر میری بات کا اثر نہیں ہوتا۔
ایک دن زبیدہ نے راشد سے کہا، تم اسکول کیوں نہیں جاتے، مجھے اسکول سے خط بھیجا گیا ہے کہ تم کو اسکول سے نکال دیا جائے گا تو وہ ہنس کر کہنے لگا، تو پھر کیا ہو جائے گا راشد کی حرکتیں دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی اب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بیڑی سگریٹ پینے لگا تھا ایک دن وہ پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوا بیڑی پی رہا تھا تو اسے اس کے ماموں نے دیکھ لیا، جب راشد کی نظر ماموں پر پڑی تو وہاں سے بھاگ گیا اور ماموں کے ہاتھ نہ لگا راشد کا ماموں اس کے گھر کی طرف چلا گیا اور اپنی بہن سے کہنے لگا۔ کہا تمہیں خبر ہے تمہارا بیٹا نشے کرتا ہے، ماں نے کہا میں اس بات کو نہیں مانتی، بھائی نے بہن سے کہا ذرا مجھے یہ بتاؤ میں تمہیں کوئی غلط بات کیوں بتاؤں گا، میں تو نہیں چاہتا کہ میری بہن کا لڑکا ایسے کام کرے جس سے تمہاری عزت مٹی میں مل جائے…
شام کے وقت راشد گھر پر آیا ماں نے اسے کچھ نہ کہا، کھانا کھلایا اور آرام کرنے کو کہا، جب وہ اندر اپنے کمرے میں گیا تو اس کی ماں بھی اس کے ساتھ ہی اندر چلی گئی، اور اس سے کہنے لگی بیٹا میں نے سنا ہے آج کل تو نشہ کرتا ہے تجھے یہ کس نے سکھایا کہ تو نشہ کرے۔ راشد نے کہا میں تو نہیں کرتا ماں نے کہا مجھے تیرے ماموں نے بتایا ہے کہ تو نشہ کرتا ہے اور آج وہ مجھے دیکھ کر بھاگ گیا…
یہ بات سن کر راشد خاموش ہوگیا ماں نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔ کہ تو یہ کیا کام کر رہا ہے راشد کو غصہ آ گیا اس نے ماں کو گالی دینا شروع کر دیا، اب ماں کو یقین ہو گیا کہ اس کے ماموں نے سچ کہا تھا، ماں نے باہر سے ایک ڈنڈا لایا اور اسے مارنا شروع کیا ابھی دو ہی ڈنڈے لگے تھے کہ راشد نے ماں کے ہاتھ سے ڈنڈا چھین لیا اور گھر سے بھاگ گیا…
راشد کی ماں رات کو انتظار کرتی رہی کہ وہ لوٹ آئے گا مگر وہ رات کو واپس نہ آیا اس رات وہ اپنے کسی دوست کے گھر پر چلا گیا۔ دو دن بعد اپنے گھر واپس آیا، تو ماں نے اس سے بات نہ کی اور وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں ہی رہنے لگا، راشد کی بہن جس کا نام شکیلا ہے وہ اسکول سے واپس آئی اور ماں سے پوچھنے لگی کہ راشد گھر آیا ہے! ماں نے کہا ہاں آیا ہے، کہاں ہیں وہ! ماں نے کہا اپنے کمرے میں ہے، وہ کمرے میں گئی دیکھا تو راشد اپنا سامان باندھ رہا تھا، اسے دیکھ کر فوراً وہ باہر نکل آئی اور ماں سے کہنے لگی راشد کہاں جا رہا ہے وہ اپنا سامان باندھ رہا ہے…
ادھر ماں کو پتہ چل گیا کہ وہ کہیں جانے کی تیاری میں ہے۔ وہ صبح سے اپنے گھر سے کہی نہ گئی تھی شام کے وقت اسے پانی لانے کے لئے جانا پڑا۔ راشد کو موقع مل گیا اور وہ اپنا بیگ اٹھا کے گھر سے چلا گیا۔ راشد کا باپ ایک مزدور تھا، وہ مزدوری کرنے کے لیے دور کسی دوسرے شہر میں گیا ہوا تھا، راشد کو گھر پہ کسی کا ڈر نہ تھا جب اس کی ماں واپس آئی تو دیکھا راشد اندر نہیں ہے شکیلہ نے کہا وہ اپنا بیگ لے کر چلا گیا ہے…
ماں گھر میں رونے لگ گئی کہ وہ نہ جانا کہاں چلا گیا ہے پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا ہو گا اتنے میں حیدر آیا۔ اور ماں کے پاس بیٹھ گیا کہنے لگا ماں کیوں رو رہی ہو۔ وہ تمہیں گالی دیتا ہے، تمہاری بات نہیں مانتا، اس نے اپنی ماں کے آنسو صاف کیے اور کہا کہ میں تمہارا خیال رکھوں گا…
ادھر راشد اپنے ایک دوست کے گھر میں پہنچا جس کا نام قادر تھا وہ بھی اپنے گھر والوں سے تنگ آیا ہوا تھا رات کو دونوں اکٹھے رہے اور آپس میں صلح کر کے دہلی کے لئے صبح سے پہلے ہی نکل گئے، صبح جب قادر کے گھر والوں نے قادر کو جگانا چاہا تو وہ اس کے کمرے میں گے دیکھا تو وہاں پر قادر نہیں ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی کہنے لگا کہ اس نے اپنا سامان کل بانھ کر رکھا تھا اور مجھے کہہ رہا تھا کہ میں صفائی کر رہا ہوں، آج رات کو اس کا ایک دوست آیا ہوا تھا، اور وہ دونوں کہیں چلے گئے ہوں گے…
یہ دونوں ایک ساتھ گاڑی پر بیٹھ کر دلی پہنچ گئے گئے، پہلے دو تین دن انہیں کوئی کام نہ ملا، مگر چوتھے دن انہیں ایک کمپنی کے بارے میں پتہ چلا ملا اور دونوں وہاں پر چلے گئے۔ ایک مہینے تک وہ اپنی ڈیوٹی کرتے رہے اور پھر ان دونوں میں کسی بات پر لڑائی ہوئی یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گے اب انہوں نے نئے دوست بنانا شروع کر دیے، ایک دن راشد کو ایک دوست نے بلایا اور یہ چلا گیا، دونوں کی ملاقات ہوئی انہوں نے مل کر چائے پی اور پھر ایک ساتھ سگریٹ سلگائی…
راشد کے نئے دوست کا نام جنید تھا، اسے پتہ چل گیا کہ یہ بھی نشہ کرتا ہے کچھ دن تک اس نے راشد کو سگریٹ کے پیسے نہ دینے دیے اب راشد کو لگا کہ یہ میرا سچا دوست ہے، دونوں ساتھ ساتھ رہنے لگے ایک دن جنید نے راشد کو شراب کی خوبیاں بتانا شروع کیں، راشد اس کی بات کو غور سے سنتا رہا اور پھر اس کا دل اس بات پر آمادہ ہوگیا، کہ میں بھی پئیوں گا
شروع شروع میں حیدر نے اسے تھوڑی تھوڑی پلائی مگر جب راشد کو عادت ہو گئی تو وہ اپنے پیسوں سے لینے لگا تھوڑی عرصے بعد اسے شراب کی ایسی لت لگ گئی کہ وہ پی کر پورا دن بے ہوش پڑا رہنے لگا…
دلی میں اس وقت گرمی بھی بہت زیادہ تھی کچھ دنوں بعد راشد کی صحت خراب ہونے لگی وہاں جنید کے سوا اسے کوئی جاننے والا بھی نہ تھا، جنید اسے ہسپتال تک لے گیا اس وقت اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے، کہ وہ راشد کا علاج کروا سکے مگر راشد کے پاس صرف چھ سو روپے تھے، اس نے جنید کو دیئے اور اپنا علاج کروایا اور واپس کمرے تک آ گئے…
راشد کی صحت اب پہلے سے تھوڑی سی ٹھیک ہوئی مگر اس کے اندر سے پوری طرح وہ بیماری ختم نہ ہوئی، آہستہ آہستہ یہ بیماری بڑھتی گئی اور اس کی حالت دن بہ دن خراب ہونے لگی، اب اس کا جسم بالکل دبلا ہو چکا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ اسے کسی نے کبھی کھانا ہی نہیں دیا، جب اس کی صحت مستقل خراب رہنے لگی تو وہاں سے واپس گھر آ گیا جب وہ اپنے گھر پہنچا، تو ماں نے اسے دیکھا اور کہا! کیا تو راشد ہے! یہ تیری حالت کیا بنی ہوئی ہے تو کہاں گیا ہوا تھا…
راشد نے جواب دیا میں دہلی گیا ہوا تھا اور اب میں بیمار ہوا ہوں، میری حالت بہت خراب تھی اس لیے واپس آ گیا ہوں ماں نے کہا بیٹا اندر چل، میں تیرے لیے کھانا لاتی ہوں تجھے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ تجھے کبھی کسی نے کھانا ہی نہیں دیا، اس نے کچھ جواب نہ دیا اور سیدھا اندر چلا گیا اتنے میں شکیلہ نے ماں کو آواز لگائی! ماں کس سے باتیں کر رہی ہو، زبیدہ نے کہا راشد گھر لوٹا ہے اور اس کی صحت خراب ہے تو اس کا سامان اٹھا کے اندر رکھ میں کھانا تیار کرتی ہوں…
ماں نے اپنے ہاتھوں سے راشد کو کھانا بنا کر کھلایا اور آرام کرنے کے لیے چھوڑ دیا، دو تین دن تک راشد نے صبر کیا مگر اسے صبر نہ ہوا وہ اپنے گھر سے نکلا اور سیدھا شراب کی دکان پر جا پہنچا اور وہاں سے شراب کی بوتل لے کر پی پی، اب اسے کسی چیز کا دھیان نہ تھا یہاں تک کہ وہ اس کے نشے میں اس طرح ڈوبا ہوا تھا کہ اسے خود اپنے بارے میں معلوم نہ تھا، کہ میں کہاں کھڑا ہوں، وہ راستہ پر چلتے چلتے آگے بڑھا، اچناکتو اس کا پاؤں پھسلا اور وہ نالی میں گر گیا، اس نے اٹھنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا…
جب شراب کا نشہ اتر گیا اور شام کا وقت قریب آیا تو وہ وہاں سے نکلا اور اپنے وہی گندے کپڑے پہنے ہوئے گھر پہنچا اس روز اس کی قسمت اچھی تھی کہ اسے کسی نے دیکھا نہیں اور وہ اندر چلا گیا اور آرام سے سو گیا…
دوسرے دن راشد کی کلاس کا رزلٹ نکلا اور وہ بارہویں جماعت میں فیل ہو گیا کیونکہ اس نے پرچے ہی نہیں دیے تھے اس کے ساتھی کچھ پاس ہو گئے اور کچھ فیل ہو گے، راشد کا شمار بھی فیلوں میں تھا، اسے اس بارے میں کچھ بھی احساس نہ ہوا کہ میں فیل ہو گیا ہوں مگر راشد کے گھر کے قریب سے ایک لڑکا پاس ہو گیا جس کا نام حامد تھا، حامد کا باپ انجینئر تھا اور اس کے دو بیٹے تھے ایک کا نام احمد اور دوسرے کا حامد…
احمد بدقسمتی سے آنکھوں کی روشنی سے مانوس (محروم) تھا مگر تھا بہت ذہین، لیکن حامد بالکل صحیح سلامت تھا ان کے بچپن میں ہی ان کے باپ نے یہ سوچ لیا تھا کہ ان دونوں کو میں ڈاکٹر بناوں گا، مگر قدرت نے کچھ اور ہی چاہا تھا، احمد کا دنیاوی تعلیم میں جی (دل) نہیں لگتا تھا اور وہ دینی تعلیم حاصل کرنے لگا اس نے قرآن مجید حفظ کیا اور مولوی بن گیا اور دوسرے نے اپنی دنیاوی تعلیم جاری رکھی اور بالآخر وہ ڈاکٹر بن گیا…
حامد کے ڈاکٹر بننے کی خوشی میں سارے محلے والوں کو بلا کر دعوت دی گئی کہ حامد ڈاکٹر بن گیا، اس کی خوشی کی خاطر یہ پروگرام رکھا گیا ہے، مگر جب احمد نے قرآن حفظ کیا تھا تو کسی نے بھی کوئی پروگرام نہیں رکھا! لوگ آج حامد کو مبارکباد دے رہے تھے اور حامد بھی بہت خوش تھا اس خوشی کے ماحول میں حامد کا کلاس میٹ راشد بھی شامل تھا جو بارہویں جماعت میں فیل ہو گیا تھا…
اس جشن کے بعد دونوں بھائی اپنے اپنے فرائض انجام دینے لگے، ایک دن حامد اور احمد کا باپ اپنی ڈیوٹی سے واپس آ رہا تھا کہ اچانک روڈ (سڑک) پر مٹی پھسل کر آنے لگی اور اس نے اپنی گاڑی کو روکا کہ دیکھو یہ کہاں سے آ رہی ہے اچانک بالائی سطح سے زمین کا ایک بڑا حصہ پھسل کر نیچے آیا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا، بہت سے لوگ وہاں پر جمع ہو گے مگر کسی کو بھی ہمت نہیں ہوئی کہ اسے پکڑ سکے وہ تقریبا ایک سو دس فٹ تک نیچے گرتا گیا اور وہیں مر گیا…
اس حادثے کے بعد لوگوں نے اسے مشینوں کے ذریعے وہاں سے نکالا اور ہسپتال لے گے، حامد کو جب پتہ چلا کہ اس کا باپ ہسپتال میں ہے، تو وہ دوڑتا ہوا ہسپتال میں آیا اور علاج کروانے کے لیے اندر لے گیا، جیسے ہی اس نے اپنے باپ کے ہاتھ کی نبض چیک کی تو وہ رکی ہوئی تھی وہ اپنے باپ کے مردہ جسم کے پاس کھڑا ہو کر رونے لگ گیا…
جب اس کے مردہ جسم کو واپس گھر لایا گیا، تو اس کے گھر میں آہ وازاری ہونے لگی، اس کے عزیز و اقارب رونے لگے، مگر اس دن احمد نے یہ جملہ کہا ” انا للہ وانا الیہ راجعون” حامد نے نے وہاں روتے ہوئے تمام لوگوں سے کہا، تم سب کیوں رو رہے ہو یہ اللہ کا حکم تھا اللہ کی طرف سے زندگی ملی تھی اور اب اسی نے ہی موت دی ہے اس لئے سب خاموش ہو جاؤ اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرو…
احمد نے اپنے باپ کو غسل دیا اور جب جنازہ پڑھانے کی باری آئی تو لوگوں نے ڈاکٹر سے کہا کہ آپ جنازہ پڑھائیں اس کی زبان سے بے ساختہ آواز نکلی کہ مجھے نماز نہیں آتی، یہاں تک کہ وضو کے فرائض سے بھی میں نا واقف ہوں، ڈاکٹر (حامد) کو اپنے آپ میں بڑی شرم محسوس ہوئی کہ میں ان سب چیزوں سے بے خبر ہوں مرنا تو مجھے بھی ہے…
احمد نے اپنے باپ کا جنازہ پڑھایا اور انہیں قبر میں اتارا، دفن کرنے کے بعد سب لوگ وہاں سے چلے گئے، یہاں تک کہ حامد بھی وہاں سے چلا گیا مگر احمد اپنے باپ کی قبر سے دور نہیں ہوا، وہاں بیٹھے ہوئے باپ کی مغفرت کے لیے دعائیں کرنے لگا، اور قرآن کی تلاوت کرنے لگا، تین دن مسلسل اپنے باپ کی قبر پر بیٹھے رہنے کے بعد وہ اپنے گھر آیا، اور حکم دیا کہ اب گھر میں کھانا بنا لو…
سوگ کے دوسرے دن جب حامد رات کو سویا ہوا تھا تو اسے اپنا باپ خواب میں آیا اور اور اس سے کہنے لگا، ہائے افسوس میں نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے خود پر، کاش حامد تو بھی اندھا ہوتا اور میں تجھے قرآن کا حافظ بناتا، میرے اعمال اس قدر نہیں تھے کہ میں جنت میں جاسکتا، لیکن میرے بیٹے احمد کی دعاؤں میں اتنا اثر تھا کہ میرے تمام معاملات آسان ہوتے گے اور میں جنت میں داخل ہو گیا…
پھر حامد کے باپ نے اسے کہا بیٹا ابھی تیرے پاس وقت ہے تو اپنے بھائی احمد کے ساتھ کبھی نہ چھوڑنا وہ اللہ کا بہت پیارا ہے، دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے یہ بس ایک دھوکا ہے، اس لیے تو بھی نیک اعمال کر اور کسی کے ساتھ بھی ناانصافی مت کرنا، فرشتوں نے دو کتابیں رکھیں اچھائیوں اور برائیوں کی اب تیرے اوپر ہیں کہ تو کس کتاب کو فوقیت دینا چاہتا ہے…
یہ باتیں کہہ کر حامد کا باپ وہاں سے غائب ہو جاتا ہے اور حامد انہیں ڈھونڈنے کے لیے نکل جاتا ہے اچانک راستے میں حامد کا پاؤں پتھر سے لگتا ہے اور وہ گرنے لگتا ہے اسی کے ساتھ ہی وہ اپنی نیند سے بیدار ہو جاتا ہے…
جاگنے کے بعد حامد چاروں طرف دیکھتا ہے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور سوچنے لگتا ہے کہ یہ سب کیا تھا حامد نے اس بات کو اپنے دل میں رکھا اور نیکی کی طرف راغب ہو گیا اب اس نے ڈاکٹر کے پیشے کے ساتھ ساتھ قرآن بھی سیکھ لیا اور نماز بھی پڑھنا شروع کر لی…
ایک دن حامد اپنے گھر لوٹ رہا تھا اس روز اس کی ملاقات راشد سے ہوئی، پہلے راشد نے اسے دیکھ کر اپنا راستہ بدلنا چاہا پھر ذہن میں سوچنے لگا، کیا کیا جائے حامد نے آواز دی راشد کیا بات ہے ادھر آؤ راشد اس کے قریب آیا اور اس سے ہاتھ ملا کر بولا میں کافی بیمار رہتا ہوں، پیٹ میں درد رہتا ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ اپنا علاج کروا سکوں…
حامد نے یہ سن کر کہا، کل میرے ہسپتال میں آنا میں علاج کرؤں گا دوسرے دن راشد ہسپتال گیا اور اپنا چیک اپ کروانے لگا، معائنہ کرتے کرتے حامد کو پتہ چلا کہ اس کے گردے ختم ہوگئے ہیں، اس سے پوچھا گیا کہ تو کیا کیا نشہ کرتا تھا، سچ سچ بتانا، اس نے جواب دیا، پہلے بڑی بیڑی، پھر سگریٹ پھر سگریٹ میں بھنگ ڈال کر، پھر شراب پینا شروع کی، کئی بار ہیروئن کا استعمال بھی کیا، اور ایک دو مرتبہ پھکی بھی کھائی ہے… ان تمام نشوں کا سن کے حامد نے کہا کیا تیرے گھر میں کسی کو پتہ ہے کہ تو یہ سب نشے کرتا ہے…
راشد نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا، سب چیزوں کا تو پتہ نہیں، لیکن ایک سگریٹ کا پتہ ہے، حامد نے کہا اب تیرے دونوں گردے خراب ہوگئے ہیں اس حال میں میں کچھ نہیں کر سکتا میرے پاس یہاں کوئی گردہ بھی نہیں ہے کہ میں وہ تجھے ڈال سکوں…
دو چار دن بعد جب راشد کی ماں کو اس کی بیماری کا علم ہوا تو وہ ڈاکٹر سے عرض کرنے لگی کہ آپ میرے بیٹے کی جان بچا لو، جو کرنا پڑے گا وہی کرو، ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کے دونوں گردے ختم ہوئے ہیں اب اگر کہیں سے گردہ مل جائے تو میں اس کا علاج کرسکتا ہوں ورنہ اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا…
ماں تو ماں ہی ہوتی ہے اس کی محبت بچوں کے لیے بے انتہا ہوتی ہے اس نے کہا اگر میرا ایک گردہ اس میں پڑ جائے تو کیا یہ ٹھیک ہو سکتا ہے ڈاکٹر نے کہا ہاں اگر ایک گردا مل جائے تو یہ بچ سکتا ہے، ماں نے دیر کرنے کے بغیر ہی ڈاکٹر سے کہا چلو میرا ایک گردہ نکال لو اور اسے دے دو ماں نے اپنا ایک گردہ دے کر اپنے بیٹے کی جان بچا لی…
بیس دن ہسپتال میں رہنے کے بعد راشد کو واپس گھر لایا گیا اب آہستہ آہستہ اس کی صحت تندرست ہونے لگی اور اسے اپنے گھر کی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہونے لگا، راشد کا باپ رشید بھی غریب انسان تھا، اب دونوں باپ بیٹے محنت مزدوری کرنے لگے، ایک سال کے بعد راشد کو ایک اچھی کمپنی میں کام کرنے کی جگہ مل گئی، اور وہ وہاں پر کام کرنے لگا، اسے اپنے گھر کی ذمہ داریوں کا جب احساس ہو گیا، تو سب سے پہلے اس نے اپنے گھر کو تعمیر کروایا، پھر بہن کی دھوم دھام سے شادی کروائی، اور ماں کی رضا سے سے اس نے خود اپنی شادی کی، حیدر جو سب سے چھوٹا تھا وہ اپنی پڑھائی میں مصروف تھا اب اس کی پڑھائی کا خرچہ بھی راشد نے اٹھایا، پانچ چھ سال تک برابر ٹھوکریں کھانے کے بعد اسے سمجھ آ گیا کہ زندگی آسان نہیں ہے…
ایک دن راشد اکیلے بیٹھے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ کاش میں اْس وقت اسکول جاتا، عیاشی نہ کرتا تو میرا یہ حال نہ ہوتا اور آج میں کسی اچھی منزل پر ہوتا اس وقت راشد کا یہ سب کچھ سوچنا بے سود تھا !!!