مردہ ضمیر
تحریر:میم عین لاڈلہ
جنازے کی نماز چونکہ بعد نماز ظہر ادا کی جانی تھی اس لئے وقت سے پہلے جنازے کو مسجد کے باہر لاکر رکھ دیا گیا تھا ۔
ظہر کی نماز جماعت ایک بجے تھی ۔کچھ لوگ سنتیں پڑھ کر فارغ بھی ہوچکے تھے اور کچھ لوگ پڑھ رہے تھے مگر جو لوگ پنج گانہ نمازی نہ تھے وہ مسجد کے باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے ۔ باہر دھوپ تیز تھی اس لئے لوگ ادھر ادھر سائے میں چھپے ہوئے تھے تبھی غالباً ایک بارہ سالہ معصوم و ذہین بچے نے اپنے والد سے پوچھا ۔ ” پاپا کیا ہم لوگ نماز نہیں پڑھیں گے “۔
“ہاں بیٹا جماعت ختم ہوجائے پھر جنازے کی نماز ادا کی جائے گی “۔والد نے جواز پیش کرتے ہوئے کہا: “مگر کیا ہم لوگ جماعت میں شامل نہیں ہو سکتے ۔میں مانتا ہوں کہ کفن میں لپٹا ہوا مجبور ہے مگر ہمارے ساتھ کیا مجبوری ہے ۔ مسجد بھی قریب ہے، وقت بھی ہے ہمارے پاس۔ مگر آج ہم اتنا مردہ ضمیر ہوگئے ہیں کہ مسجد کے بار انتطار تو کر سکتے ہیں مگر مسجد کے اندر نماز ادا نہیں کر سکتے ۔آخر کیوں پاپا؟؟ ” بچے نے معصومیت سے پوچھا ۔
بچے کی باتیں سن کر پاس کھڑے لوگ شرم سے پانی پانی ہو گئے ۔
*********************************************************************************************************************
وصیت نامہ
تحریر:میم عین لاڈلہ
ترک تعلیم کے بعد والد کے حکم پر بنگال چچا کے پاس آنا پڑا ۔ یہاں وہ ایک جوٹ مل میں ملازم تھے ۔یہیں مجھے بھی ملازمت میں لگوا دیئے ۔
کھانے پکانے کی قلت کے سبب یہیں مجھے سب کی رضا مندی پر شادی کرنی پڑی۔
دیکھتے دیکھتے اللہ نے چار بیٹے بھی عطا کئے ۔ اپنے بچوں کو ہر دم خوش دیکھنے کے لئے میں نے کوئی کمی نہیں کی۔ عمدہ لباس، لذیذ کھانا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے خرچ اتنے بڑھتے گئے کہ آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ ہونے لگا ۔ میں یہی سوچ کر قرض لیتا گیا کہ جب بیٹے کمانے لگیں گے تو دکھ دور ہوجائے گا ۔
ایک دن گھر کے سارے لوگ شادی میں گئے تھے مگر میں بیماری کا بہانہ بنا کر نہیں گیا ۔ اپنے وکیل کو فون کرکے بلایا اور یہ وصیت نامہ تیار کروایا اور کہا ۔
“جب میری موت ہو جائے تو یہ وصیت نامہ میرے بچوں کو پڑھ کر سنا دینا۔”
میرے بچوں آپ لوگوں کی خوشی اور خواہش کا میں نے ہمیشہ احترام کیا۔ جس کے چلتے میں مستقبل کیلئے کچھ پونجی جمع کرنے کے بجائے میں قرض ڈوب گیا ۔
اس لئے اب یہ ذمّہ داری بنتی ہے کہ تم لوگ سارے قرض مل جل کر چکا دینا تاکہ میری روح کو تسکین مل سکے۔