تحریر:شفق سوپوری
پنڈت بھجن سوپوری نے اپنے فنی کمال سے نہ صرف جموں کشمیر بلکہ اپنے ملک کا سر فخر سے اونچا کردیا۔ ان کی وفات سے صوفیانہ موسیقی کو زبردست نقصان پہنچا۔ ان سے میری ملاقات ریڈیو کشمیر سرینگر میں ہوئی تھی۔ مجھے ان کے تلمذ میں آنے کی بڑی تمنا تھی۔ مگر سوپور سے سرینگر کی مسافت کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ ان کے کہنے پر ہی میں پنڈت واسودیو ریہہ کا شاگرد بن گیا۔ نیم کلاسیکی موسیقی سیکھنے کے لئے میں نے مرحوم غلام نبی شیخ صاحب کی طرف رجوع کیا۔ اس سلسلے میں اکثر میں شیخ صاحب کے ساتھ اسٹوڈیو میں موجود رہتا۔ کئی بار گلوکار سے ریکارڈنگ کے دوران غلطی ہوجاتی تو شیخ صاحب آگ بگولا ہوکر مجھ سے کہتے ذرا تم یہ لائن گاو۔ میں گاتا تو کہتے کہ سیکھ لو اس سے کچھ سیکھ لو۔ اس سے میری حوصلہ افزائی ہوجاتی۔ افسوس شیخ صاحب نے مجھ سے کئی راگ سیکھے مگر مجھے کچھ نہیں سکھایا۔ ایک روز مجھے گاتا ہوا بھجن جی نے سنا تو بہت خوش ہوئے۔ فرمایا تم بہت اچھا گاتے ہو۔ باہر جاکر کسی اچھے استاد سے سیکھ لو۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس اتنے وسائل نہ تھے۔ بہرحال اس شوق کو میں نے دوسرے طریقے سے پورا کیا۔
لغات موسیقی میں پنڈت جی کے اندراج کا معاملہ پیش آیا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کے فرزند ارجمند استاد ابھے رستم سوپوری سے رجوع کیا جائے ورنہ ویکی پیڈیا پر میری ضرورت کا مواد موجود تھا۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے مہربان بھائی اور دوست جناب رفیق مسعودی سے گزارش کی۔ اچھا مسعودی صاحب نے خدمت خلق کے لئے اپنی حیات وقف کی ہے۔ بنا کسی توقف کے ابھے جی سے بات کی۔ مجھے ان کا فون نمبر دیا۔ اور ملاقات مقرر ہوئی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ یہ نوئیڈا میں میرے ہمسایہ ہیں۔ دلی میں مسعودی صاحب کی معیت میں ہی میری ملاقات پنڈت بھجن جی سے ان کی لودھی روڑ والی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ اس دن بھابی نے کہا تھا آپ بھی سوپوری ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کیوں ان کے اس جملے میں طنز محسوس ہوا تھا۔ کل جب میں ان کے گھر گیا تو بھابی کہیں گئی ہوئی تھیں۔ ابھے جی نے میرے گھر میں موجود ہونے کی اطلاع دی تو ان سے کہا کہ سوپوری صاحب کو تب تک روکو جب تک میں نہ آتی۔ چنانچہ جب تک وہ تشریف لائیں تب تک میں نے ابھے جی سے بھجن جی کی حیات اور ان کے فنی امتیازات کے بارے میں تفصیل سے پوچھا۔ بھابی جب تشریف لائیں تو بہت جذباتی ہوگئیں۔ میری بھی آنکھیں نم ہوئیں ۔ فرمایا بھجن جی اکثر آپ کا ذکر کرتے تھے۔ پھر کچھ باتیں ہوئیں۔ سب کے دل ملول تھے اور آنکھیں نم۔ رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے مجھ سے ایک وعدہ لیا۔ اگر اللہ تعالٰی نے چاہا تو وعدہ وفا کروں گا۔
بہرحال میرے لئے ابھے جی سے ملنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اس قدر عظیم فنکار ہونے کے باوجود ان میں جو خاکساری اور تمکنت ہے اس سے میں متاثر ہوا۔ میرا اس گھرانے سے تعلق میرے لئے باعث فخر ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو سلامت رکھے۔