
ادبی دنیا میں ایک وبا تیزی سے پھیل چکی ہے کہ کچھ نیم ادیبائیں اور متشاعرات اپنی اداؤں ، بول چال ، چھیڑ چھاڑ اور جھوٹی محبت جتانے کر اپنا نام کمانے ، شہرت پانے اور اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہیں۔وہ اپنے ناز و ادا دیکھا کر ادیبوں کو لبھانے کی کوشش کرتی ہیں، ان سے عشقیہ گفتگو کرتی ہیں ، نازیبا حرکات کرنے سے بھی پرہیز نہیں کرتیں۔اس کے عوض ان کے مضامین اور تحریروں کو اپنے نام سے شان و شوکت کے ساتھ شائع کرتی ہیں۔دوسروں کے خیالات اور تحریرات کو اپنا کہنا جھوٹ اور کذب ہی نہیں بلکہ یہ ادبی بددیانتی بھی ہے۔خدا جانے نام اور شہرت کی یہ دیوانیاں کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں ۔اپنا لکھا اگر کمتر ہو تو بھی شان اور فخر سے کہا جا سکتا ہے کہ ہاں یہ میں نے لکھا ہے اس کے بجائے دوسروں کے لکھے خیالات چاہیے کتنے ہی اعلی اور ارفع کیوں نہ ہوں ان کو اپنا کہنے سے ضمیر ضرور ملامت کرتا ہوگا۔جھوٹ چاہیے کتنا ہی سجا کر اور خوبصورتی سے کیوں نہ بولا جائے جلد بد صورت ہوجاتا۔ ضمیر ضرور ٹوکتا ہے ، سرزش کرتا ہے ، دھتکارتا ہے۔چور بھی اگر اپنے ضمیر کی آواز سن لے تو اسے اپنا ضمیر چوری اور بددیانتی کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔
یہ وبا کشمیر میں بھی پھیلی ہے اور باقی شہروں میں بھی ایسے خبریں سماعتوں تک آتی ہیں۔بعض نے تو ایسا گھناؤنا کام کرکے اپنی کتابیں بھی منظر عام پر لائی ہیں جن میں ان کے نام کے سوا ان کا کچھ نہیں ہوتا۔ میں ایسی بہت ساری نیم ادیبائیں کو جانتا ہوں لیکن ان کا نام اس وجہ سے نہیں لوں گا کہ مجھے دوسروں کی بھی آبرو کا اتنا ہی خیال ہے جتنی مجھے اپنی عزت پیاری ہے۔ یہ کچھ مکار اور عیار عورتیں اکثر نام اور شہرت کی خاطر غیروں سے پینگے بڑھانے میں مصروف نظر آتی ہیں اور ہمہ وقت ایسے افراد کی تلاش میں رہتی ہیں جو ان کے بدلے مضامین لکھے، اخبارات میں شائع کرائے اور ان کو پرموٹ کرنے کی سعی میں لگے رہے۔ان کا کام بن گیا تو ٹھیک ورنہ کسی اور کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔اس کوشش میں وہ مال و زر خرچ کرنے سے خوف نہیں کھاتی اور نہ اپنی عزت داؤ پر لگانے سے گریز کرتی ہیں۔ وہ عزت ہی کیا جو عزت بیچ کر کمائی جائے۔انسان کو وہ کام کرنا چاہیے جس کو کرنے کی صلاحیت اللہ نے اسے بخشی ہے۔جن کو رب نے تقریر کرنے کی خوبی سے نوازا ہے ان کی تقریر کو سننے سے جوش اور جذبہ ابھرتا ہے، جن کو رب نے سریلی آواز بخشی ہے ان کی آواز سن کر سماعتوں میں رس گھلتا ہے۔ غرض جس کی جو صلاحیت ہے وہ اسی میدان میں اپنے جوہر دکھائے تو بہتر رہتا ہے۔ اسی طرح رب نے جن کو تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہی اگر ادب تخلیق کریں گے تو وہ ادب عالیہ ہوگا ۔دوسروں کی خوشامد کرکے ، ان سے عشقیہ گفتگو کرنے،ان کے کام اور محنت کو اپنے نام کرنے سے نام اور شہرت کمانے کی سعی کرنا کار فضول ہے۔جس طرح ہر کام سیکھا جا سکتا ہے اسی طرح اپنے خیالات کو قلمبند کرنے کا ہنر بھی سیکھا جا سکتا ہے۔کسی بھی کام کو سیکھنے کے اپنے ادب آداب ہوتے ہیں لکھنے کے بھی اپنے اصول ہیں جن کا درس لیا جاسکتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جس کے پاس جو شئے نہیں ہوتی اس کا اسے شوق ہوتا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے غلط راستے کا انتخاب کیا جائے۔بہتری اسی میں ہے کہ عزت کمانے کے لیے عزت کا سودا نہ کیا جائے جس سے دنیا میں بدنامی اور آخرت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔۔
