تحریر:ڈاکٹر خالد سہیل
ہم اپنی زندگی کی ذمہ داریوں میں اتنے مصروف رہے کہ ہمیں احساس ہی نہ رہا کہ ہم نے اپنی دھرتی ماں کی نگہداشت میں کوتاہی کی ہے۔ لیکن اب ہمارے ملک کے حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ہم سب فکرمند ہو رہے ہیں۔
میں جس شہر میں رہتا ہوں وہاں بادشاہ سلامت کا ایک شاندار محل ہے جس کے باہر گلیاں اور بازار بھی ہیں اور ایک کھلا میدان بھی۔ میری دکان بھی اسی بازار میں ہے۔ میں کافی مدت سے ہر روز یہاں آتا ہوں اور اپنا سامان فروخت کرتا ہوں۔
کچھ عرصے سے ہماری گلیوں اور بازاروں کے قریب کھلے میدان میں بہت سے اجنبی خانہ بدوش آ بسے ہیں۔ ان کے پاس اسلحہ بھی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ مسلح خانہ بدوش ہمارے فوجی نہیں ہیں۔ وہ کسی اور دنیا کسی اور ملک سے یہاں آئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے وہ ہمارے ملک کے دارالخلافہ تک کیسے پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہمارا دارالخلافہ ہماری سرحد سے کافی دور ہے۔ بہر حال وہ کسی نہ کسی طریقے سے یہاں پہنچ گئے ہیں اور ہر روز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ جس کھلے میدان میں بسیرا کیے ہوئے ہیں وہ وہاں ہر روز گھڑ سواری بھی کرتے ہیں اور اپنے تیر کمان اور تلواریں بھی تیز کرتے رہتے ہیں۔ ہم ان کے قریب جاتے ڈرتے ہیں کہیں ان کے طاقتور گھڑوں کے بھاری پاؤں تلے روندے نہ جائیں۔
ہم ان سے گفتگو نہیں کر سکتے کیونکہ نہ وہ ہماری زبان جانتے ہیں اور ہم بھی ان کی زبان سے نابلد ہیں۔ وہ ہمارے قریب آتے ہیں تو ان کی آنکھوں کی سفیدی اور منہ سے جھاگ بڑھ جاتی ہے لیکن وہ پھر بھی کچھ کہہ نہیں پاتے۔ وہ طاقت استعمال نہیں کرتے لیکن ان کا رعب اتنا زیادہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے ہیں تو سب خود ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ اپنی مرضی کی ہر چیز دکانوں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور کوئی کچھ بھی تو نہیں کہہ پاتا۔ وہ اجنبی خانہ بدوش میری دکان پر بھی آتے ہیں اور اپنی مرضی کی چیزیں لے جاتے ہیں۔ میں ان کی شکل دیکھتا رہ جاتا ہوں اور کچھ کر نہیں پاتا۔ خاموش رہتا ہوں۔
میری دکان کے سامنے ایک قصائی ہے وہ اجنبی خانہ بدوش اس کی دکان سے کچا گوشت اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اپنے گھوڑوں کو کھلاتے ہیں۔ ایک دن قصائی کچے گوشت کی بجائے ایک زندہ بیل لے آیا۔ وہ خانہ بدوش اس بیل پر جھپٹ پڑے۔ اس بیل نے اتنی چیخیں ماریں کہ میں نے زمین پر لیٹ کر اپنے آپ کو چادروں کمبلوں اور لحافوں میں چھپا لیا تا کہ یہ کریہہ چیخیں نہ سن سکوں۔
بیل کے چیخنے کی آوازیں سن کر پہلی بار میں نے بادشاہ سلامت کو اپنے محل کی کھڑکی سے باہر جھانکتے دیکھا۔ اس سے پہلے بادشاہ سلامت اپنے محل کے باغ میں چہل قدمی کیا کرتے تھے اور اپنی خوشگوار زندگی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس دن بادشاہ سلامت کافی دیر اپنے محل کی کھڑکی میں کھڑے رہے اور باہر کا منظر دیکھتے رہے۔
میں اور میرے دوست سوچتے رہے کہ ہم یہ عذاب کب تک جھیلتے رہیں گے۔
بادشاہ سلامت کے محل کی وجہ سے یہ سب اجنبی خانہ بدوش دارالحکومت تک آ تو گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں واپس کون بھیجے گا۔
محل کا دروازہ مقفل رہتا ہے۔ محل کے باوردی اور مسلح محافظ جو پہلے گلیوں اور بازاروں میں چہل قدمی کیا کرتے تھے اب سلاخوں کے پیچھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کے سب شہری سب عوام اپنی زندگی کے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم اتنے محب الوطن نہیں ہیں کہ اپنی دھرتی ماں کے لیے جان کی قربانی دیں۔ ہمیں یہ سب کسی بڑی سازش کسی بڑی غلط فہمی کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے اور ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ بالآخر یہ غلط فہمی ایک دن ہمیں مار ڈالے گی۔
