تحریر:ڈینس لائی
انتظار حسین کے افسانہ ”زرد کتا“ ایک مظہریاتی افسانہ ہے جس میں ادیب آفاقی پسندی کے ادبی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے انسانی مقصدیت کی جستجو میں فقر و قلندری اور لذت گرایی کے درمیان ہونے والی کشمکش کا تماشا پیش کرتے ہیں۔ ادیب کے نزدیک، انسانی جسم بنانے کے لئے استعمال ہونے والی مٹی اور زمین کی مٹی کے مابین کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ کائنات اور انسان کے درمیان اللہ پاک کی تخلیق کر دہ مقدس ترین وحدت ہے۔ زرد کتا ہماری زندگی سے خارج ہونے کے بجائے اس کائنات کا ایک لازمی جز ہے، کیونکہ زرد کتا ایک یاد دہانی ہے جس کے بغیر ہم اخلاقی زوال کی ہمہ جائی سے واقف نہیں ہوں گے، جو دونوں مادی بیرونی اور روحانی اندرونی میں ہوتی ہے۔ افسانے کے چار موضوعات ہیں : اصلی علم کی طاقت، ہوس اور خواہش کا خطرہ، خیانت و انسانی کمزوری، اور اعتراف کی اہمیت۔
افشانہ ایک مرید کے خیالات، جد و جہد اور عمل پر مبنی ہے۔ افسانے کے پہلے حصہ میں، مرشد، جس کا نام شیخ عثمان کبوتر ہے، اس کے اور مرید کے درمیاں ہونے والی گفتگو کے ذریعے اصلی علم کی نوعیت کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ شیخ کے نزدیک اصلی علم انسانوں کو شہرت، مرتبہ یا دولت نہیں دے گا۔ اس کے بچائے، اصلی علم انسانوں کو ضبط نفس کی ضرورت، قربانی و شفاعت کی حسن و زیبائی اور پرہیزگاری کا راستہ دکھاتے ہوئے جہالت، نفاق اور شک سے انسانوں کو آزاد کر دیتی ہے۔
شیخ مرید کو ایک حکایت کے ذریعے اس بات سے خبردار کرتے ہیں کہ کوئی کتنا ہی عقلمند ہو، خواہ درویش ہو، شاعر ہو، عالم ہو یا دانشمند ہو، دنیاوی رغبت سے باز نہیں آ سکتا ہے۔ جدید دور میں، ہم نے ”علمی معیشت“ ، کا ایسا تصور تشکیل دیا ہے جس کے ذریعے معاشرہ مبینہ طور پر لوگوں کے مادی فلاح و بہبود کی طرف توجہ کر کے کچھ اس قسم کے علم کو آگے پڑھاتی ہے۔ ایسے علم ہماری لالچ اور خواہشات کو بھڑکانے کے سوا کچھ نہیں اور یہ اصلی سجائی کی جستجو سے متصادم ہے۔
مرکزی کردار کے علاوہ، سید رضی، ابو مسلم بغدادی، شیخ حمزہ، ابو جعفر شیرازی، اور حبیب بن یحییٰ ترمذی شیخ کے پاس دوسر مریدین تھے۔ انہوں نے ابتدا ہی سے انسانی رنج اور درد کی نشاندہی کرنے کی حوالے سے مرشد کی ہوشمندی کی تعریف کی۔ پر مرکزی کردار اپنے رفقاء بتدریج شیخ کی تعلیمات سے منحرف ہوتے ہوئے دیکھ کر اپنے آپ کو ایک وسوسے و رنجیدگی کے بھنور میں مبتلا ہوئے۔ مہکتے ہوئے مزعفر، صندل کی تختی اور گول پیالے کے خیالات کے سامنے، وہ سوال کرنے لگتا ہے کہ میرا انتخاب صحیح ہے یا نہیں؟ جیسے ہی وہ اپنے لذت گرایی اور ہوس کا شکار ہوتا ہے، زرد کتا اس کی ذہنی شورش کا باعث بن جاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جتنا زیادہ اپنی خواہشات و آرزووں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ اپنی ناپاک خواہشات کا شکار ہوتے ہیں، جیسے کہ مرید کتنا ہی سختی سے زرد کتے کو ٹھوکر مارے اور روندے، کتا اتنا ہی اسے ستاتا رہے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آرزووں اور خواہشات سے نجات حاصل کرنا بھی ایک اور قسم کی خواہش ہے! یہ پوشیدہ لیکن گہرا پیغام ہے جس پر افسانے کے اختتام میں زور دیا گیا ہے۔ اس لئے، جہاں انسانوں کو اعتراف اور عاجزی کی قدر کو تسلیم کرنا چاہیے، وہیں یہ بھی یاد کرنا چاہیے کہ نجات کی راہ میں کوئی بھی ہمیشہ مراعات یافتہ نہیں ہے اور خود نظم و ضبط کا فقدان اس قدر حقیر ہے جس قدر ہوس ہے۔ لوگ کتنی ہی چھتیں بنا لیں، اللہ پاک کی نظر سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
