مبصر :- ایس معشوق احمد
ادبی دنیا میں ابن صفی کا نام بڑا ہے اور ان کے کارنامے رفیع الشان۔عصر حاضر کے بڑے ادباء سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے پسندیدہ ادیب کون رہے ہیں تو ان میں کثیر تعداد ان کی ہیں جو جواباً یہ کہتے ہیں ہمارے پسندیدہ ادیب ابن صفی ہیں۔ان کو پڑھ کر ہی ہم نے لکھنا سیکھا ہے۔ یہ اعزاز اور قدر ومنزلت کم ادیبوں کے حصے میں آئی ہے۔ابن صفی کی تخلیقات کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ زود نویس ہونے کے باوجود معیار برقرار ہے اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی شہرت و قبولیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ایسے ادیب پر لکھنا بڑی چوٹی سر کرنے کے مترادف ہے اور طیب فرقانی نے یہ مشکل کام بحسن خوبی کیا ہے۔طیب فرقانی کا تعلق مغربی بنگال سے ہے۔ ان کا شمار عصر حاضر کے ان قمکاروں میں ہوتا ہے جو جفا کش ،محنتی اور ادب سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں۔پچھلے چند سالوں سے لگاتار ادب کی ترویج و اشاعت اشتراک پورٹل کے ذریعے انجام دے رہے ہیں اور یہ بات طول کلام کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اس کے ذریعے نئی روایت قائم کی ہے۔اس ویب پر جو بھی تحریر شائع ہوتی ہے اس کا مغز چند سطور میں بیان کر دیتے ہیں اور اس تعارف کو پڑھ کر تحریر کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ ان تحریروں کا مطالعہ بغور کرتے ہیں اور ان کو سجانے ،سنوارنے اور اغلاط سے پاک کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔حال ہی میں ان کی پہلی کتاب ابن صفی کردار نگاری اور نمائندہ کردار جو ایک تحقیقی و تنقیدی مقالہ ہے اور انہوں نے یہ ڈاکٹر خالد جاوید کی نگرانی میں لکھا ہے منظر عام پر آئی ہے۔کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے والد مرحوم کے نام کیا ہے اور بیک پر پروفیسر خالد جاوید کی مختصر رائے درج ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔مقدمے کے بعد پہلے باب میں ابن صفی کی شخصیت اور سوانح کو موضوع بنایا گیا ہے۔یہ باب سولہ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے۔ ابن صفی کے نام ، تخلص ، قلمی نام ،پیدائش ، مقام پیدائش ، ( ان تین عنوانات کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی شروعات شعر سے ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے اگر باقی ذیلی عنوانات کی شروعات بھی شعر سے ہوتی تو یہ دلچسپ ہی نہیں یقینا قابل تقلید کارنامہ ہوتا ) والدین اور گھرانہ ، بچپن ،تعلیم اور معلی ، شادی ، اولاد اور تربیت اولاد ، کہکشاں دوستاں ، عباس حسینی ، شکیل جمالی ، مجاور حسین ، اساتذہ ، تخلیقی سفر ( اس کی شروعات بھی شعر سے ہوئی ہے ) ، ہجرت ، مرض اور آخری سفر گویا ان چونسٹھ صحفات میں ابن صفی کی شخصیت ،سوانح اور تخلیقی سفر کے حوالے سے ضروری اور اہم معلومات حوالہ جات کے ساتھ دلچسپ اسلوب میں بہم پہنچائی گئی ہے۔اس باب کے آخر میں ترسٹھ حوالہ جات بھی درج ہیں۔
دوسرے باب کردار اور کردار نگاری میں ناول کی تاریخ ، اس کی مختلف حوالوں سے جامع تعریف ، کردار کی تعریف ، کردار کی ادبی تعریف ، کرداروں کی اہمیت، کرداروں کی درجہ بندی ، کردار نگاری اور اچھے کردار کی شرائط کو موضوع بنایا گیا ہے۔کردار اور اس کی اہمیت کے حوالے سے یہ بحث تئیس صحفات پر محیط ہے اور اس موضوع کی گرہیں مختلف ناولوں سے مثالیں دے کر اور حوالہ جات کے ساتھ کھولنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے۔اینٹی ناول جس میں ناول کے تمام عناصر ریزہ ریزہ ہوئے میں بھی کردار موجود ہوتے ہیں اس حوالے سے لکھتے ہیں___
” اینٹی ناول میں کردار کی مجموعی شخصیت نہ ابھرنے کے باوجود ناول میں کردار کی موجودگی سے انکار کی گنجائش نہیں اس لئے کہ کوئی بھی قصہ خلا میں تو واقع نہیں ہوسکتا۔وہ کسی فرد کا ہی قصہ ہوگا ۔بایں سبب ناول میں کردار تو ہوں گے ہاں ان کا معیار الگ ہوسکتا ہے۔”
باب سوم کے پہلے حصے میں مثالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ ابن صفی کے جاسوسی ناول عام جاسوسی ناولوں سے الگ اور منفرد مقام رکھتے ہیں اور اس کی وجہ بہترین موضوع کا انتخاب ،رواں اسلوب، درست بیانیہ اور چست کردار نگاری ہے۔دوسرے حصے میں ابن صفی کے نمائندہ کرداروں احمد کمال فریدی ،ساجد حمید ، علی عمران ، ایکس ٹو اور سیکرٹ سروس کے آٹھ ممبران ، سارجنٹ ناشاد ، تنویر اشرف ، صفدر سعید ، بلیک زیرو، جوزف مگونڈا، انور سعید ، قاسم رضا ، کیپٹن فیاض، سلیمان،سنگ ہی ، نادر ، ظفر الملک ، استاد محبوب نرالے عالم اور ہد ہد کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ کردار کس ناول میں ہیں، ان کا حلیہ ، عادات و اطوار ، ان کا رول مثبت ہے یا منفی ان کرداروں کے حوالے سے یہ ساری معلومات فراہم کی گئی ہے۔
باب چہارم جو مقالے کا بنیادی موضوع ہے میں ابن صفی کے نمائندہ نسوانی کردار میں تانیثیت کے علاوہ ابن صفی کے ناولوں میں نسوانی کرداروں بہرام لیڈی ، پرکاش لیڈی ، تارا پرنسز ،تتاریہ مادام ، تنویر لیڈی ، تھریسیا بمبل بی آف بوہیمیا ( ٹی تھری بی ) تھیلما ، ثریا ، جولیا نافٹز واٹر ، جہانگیر لیڈی ، جے سیکا (مونچھ مونڈنے والی)، جینی ، رافیہ سموفاف رانی آف ساجد نگر ، رشیدہ، رلانے والی( نوما اسکراٹا) ، روشی ، روزا ،ریما ، ریناڈکسن ،زوبی لیڈی ، زوبیا، ساجدہ حبیب ، سارہ رحمان ، سائرہ عبد الغفور ، سلیمہ ، شہناز ، صبیحہ ، صبیحہ اور زرینہ ، صفورا کلاسوری ، صوفیہ ، صوفیہ دوم ، عامرہ ، غزالہ ، فریدہ ، کنول ، لزی ، لوسی کریگ ، مارتھا ، مونا چنگیزی ، مونیکا لیڈی ، نانوتہ ، نجم السحر نجمی ، نیلم اور نینا کے علاوہ بہت سے نام درج کئے گئے ہیں جن کا شمار ابن صفی کے تخلیق کردہ نمائندہ کرداروں میں کیا جا سکتا ہے۔یہ کردار کس ناول میں ہیں اور ان کا حلیہ ، عادات و اطوار، ان کے چند مکالموں کو بھی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔تارا پرنسز کے کردار کیسا ہے اس پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے___
” پرنسز تارا ایک عجیب و غریب کردار ہے ۔ایک ایسا رومانی کردار جو اپنے محبوب کو پانے کے لیے اپنا جسم بھی داؤ پر لگا بیٹھتا ہے۔ اس کا ذکر فریدی حمید سریز کے ناول نمبر 86 ” زہریلا آدمی ” ( فروری 1960) میں آیا ہے۔پرنسز تارا ریاست درگوری کی راج کماری ہے۔یہ ایک اینگلو انڈین لڑکی ہے جو پوری طرح ہندوستانی بننے کی کوشش کرتی ہے۔اسی لیے وہ اسکرٹ نہ پہن کر چوڑی دار پاجامہ اور لمبا فراک یا غرارہ یا پھر شلوار پہنتی ہے۔یوریشین ہونے کی وجہ سے بے حد خوبصورت بھی ہے۔حمید کو پہلی نظر میں وہ چڑ چڑی معلوم ہوتی ہے۔حمید اس کا قرب بھی حاصل کرنے کے چکر میں دیکھا گیا ہے لیکن تارا فریدی کی دیوانی ہے۔”
تتاریہ مادام کے متعلق یہ معلومات دی گئی ہے۔__
” تتاریہ بنیادی طور سے جنس زدہ کردار ہے اور یہی اس کی کمزوری بھی ہے۔ اسی کے چکر میں وہ ماری بھی جاتی ہے۔خد و خال اور چہرے مہرے کے لحاظ سے بلند قامت اور وجیہ عورت ہے۔40 سال کی تتاریہ کی جسمانی ساخت قاسم جیسے گرانڈیل کے لیے زیادہ موزوں ہے۔اس کردار کا زکر فریدی حمید کے چار سلسلہ وار ناول معروف بہ شعلہ سریز ( ستمبر تا دسمبر 1956) کے آخری دو ناولوں میں آیا ہے۔”
تنویر لیڈی کے کرادر کے بارے میں لکھا ہے کہ ___
” لیڈی تنویر کا کردار پر اسرار ، خطرناک اور نفسیاتی ہے ۔ ایسا نفسیاتی کردار جو مجرم ہوتے ہوئے بھی فریدی کی ہمدردی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ابن صفی نے اسے بڑی چابک دستی سے تراشا ہے۔یہ کردار فریدی حمید سریز کے ناول نمبر 54 سائے کی لاش ( اگست 1954) میں پیش کیا گیا ہے۔”ان چار ابواب کے بعد ماحصل اور آخر پر کتابیات درج ہیں۔
ابن صفی کے ناول ایکشن سے بھرپور ، تجسس سے پر ، اخلاقیات کا درس لیے، تفریح کا ذریعہ ، رومان اور مزاح سے لبریز ، سنسنی خیز مناظر اور محیر العقول واقعات کی بدولت ایک رنگین دنیا کو آباد کرتے ہیں۔انہوں نے رواں ، سلیس ،شگفتہ اور دل پذیر اسلوب میں بے شمار لازوال کرداروں کو وجود بخشا ۔ان کرداروں کی بدولت قارئین کثیر تعداد میں ان کے پرستار اور ان کی فنکاری کے دلدادہ ہوئے۔ان کے ناول کی مشہوری اور کرداروں کی مقبولیت کا اندازہ خالد محمود کے اس اقتباس سے کیجیے ۔لکھتے ہیں ___
” ایک وقت تھا کہ ان کے ناولوں کا چسکا نشے کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ ان کے ناول تکیوں کے نیچے ، لحافوں کے اندر، فائلوں کے اندر کہاں کہاں نہیں پائے جاتے تھے۔ بیڑی کے کارخانوں میں خوش مذاق مزدروں سے لے کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے باذوق طلبہ اور اساتذہ تک تمام لوگ شوق سے پڑھتے اور حسن بیان سے لطف اندوز ہوتے۔جو بظاہر منکر تھے وہ چھپ چھپا کر پڑھتے مگر پڑھتے وہ بھی تھے۔ابن صفی کے بعض چاہنے والوں کی دیوانگی یہاں تک پہنچ گئی۔ تھی کہ فریدی حمید اور عمران کی نقل کرنا ، ان جیسا مذاق کرنا ، ان کے مکالمے بولنا، ان کے انداز میں جملے دہرانا اس عہد کا فیشن سا ہوگیا تھا۔میں اپنی بستی کے دیوانوں سے ذاتی طور پر واقف ہوں جنہوں نے حمید کی نقل میں بکرا پال رکھا تھا۔۔۔۔۔ایک صاحب نے چوہیا پالی تھی جس کے پاؤں میں حمید کی چوہیا کی طرح گھونگرو باندھے گئے تھے۔ایک اور جیالے پر فریدی اور عمران دونوں کا بھوت سوار تھا۔فریدی کی طرح غور وفکر میں ڈوبے رہتے اور عمران کی طرح سنگ آرٹ کی مشق کرتے۔مشق کے دوران زخمی بھی ہوئے مگر زخموں سے عشق کا قدیم رشتہ ہے۔موصوف نے شادی بھی نہیں کی ممکن ہے انھیں کرداروں کی صحبت کا اثر ہو۔”
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ابن صفی کی شخصیت ، کردار نگاری ،نمائندہ کردار کے حوالے سے یہ ایک اہم کتاب ہے۔اس میں ابن صفی کے تخلیق کردہ مشہور و معروف کرداروں کا جائزہ ، پس منظر ، ان کے فطری انداز ، ادب اور عام قارئین میں ان کا اثر ، ان کی اہمیت ، ان کرداروں کا تفصیلی اور تنقیدی جائزہ طیب فرقانی نے اس کتاب میں پیش کیا ہے۔انہوں نے تحقیق اور تنقید کے دونوں پلڑوں کو برابر رکھا اور متوازن رائے پیش کی ہے۔یہ کتاب آنے والے وقت میں ابن صفی اور ان کے مشہور کرداروں کے حوالے سے اہم ماخذ ثابت ہوگی۔ابن صفی پر کام ہوا ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے جس میں محنت اور شوق صاف جھلکتا ہے جو اس کو دوام بخشنے کے لیے کافی ہے۔
