تحریر:الطاف حسین جنجوعہ
آپ نے اکثر اپنے گاؤں، محلہ اور گردونواح کے علاقہ جات میں اِس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ دہائیوں قبل جس سڑک یا کسی اور سرکاری عمارت کی تعمیر شروع کی گئی تھی، وہ ابھی بھی ادھوری ہے۔ اگر تعمیر ہوبھی گئی ہے تواراضی مالکان کو معاوضہ نہیں ملا۔بہت ساری سڑکوں یا سرکای عمارتوں میں اس وجہ سے کام رُکا پڑا ہے کہ معاملات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔کسی جگہ پر سرکاری اسکول کی تعمیر ہوئی، تعمیر کے وقت اراضی مالک کو روزگار کی طفل تسلی دی گئی لیکن بعد میں ہوا کچھ نہیں جس پر اراضی مالک یا اُس کے اہل خانہ میں سے کوئی صبح کے وقت جب اسکول میں دعائیہ مجلس ہوتی ہے، وہاں پہنچ جاتا ہے اور پھر کھری کھوٹی سُنا کردل کی بھڑاس نکالتاہے۔اسی طرح بہت سی سڑکیں ، پن بجلی پروجیکٹ ، ریلوے پروجیکٹ ایسے ہیں جن کی باقاعدہ تعمیر ہوچکی ہے،مکمل فعال ہیں، ٹریفک نقل وحمل رواں دواں ہے مگر اراضی مالکان آج بھی معاوضے کی فائل لیکر دفتروں میں چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ بہت سی سرکاری عمارتیں ایسی بھی ہیں، جو کئی سال گذرنے کے بعد پرانی بھی ہوگئی ہیں، مگر اراضی مالکان معاوضہ کے منتظر ہیں۔اس کی بڑ ی وجہ کسی کی بھی ملکیتی اراضی کسی سرکاری تعمیرات کے لئے لینے سے قبل قانونی طریقہ کار پر عمل نہ کرنا ہے۔
اس کے لئے باقاعدہ ’اراضی حصولیابی قانون ‘ہے۔جموں وکشمیر میں تنظیم نو قانون2019سے قبل جموں وکشمیر اراضی حصولیابی قانون1990(1934 A.D)تھا لیکن اب مرکزی قوانین کے براہ راست اطلاق سے مرکز کا اراضی حصولیابی قانون2013نافذ ہے جو کہ ایک جامع اور عوام دوست قانون ہے۔پہلے اراضی حصولیابی قانون1984تھا جس میں مزید بہتری لاکر سال 2013میں ایک جامع قانون لایاگیا ۔ (رائٹ ٹو فیئر کمپنسیشن اینڈ ٹرانس پیرینسی اِن لینڈ ایکویزیشن، ریہیبلیشن اینڈ ری سیٹلمنٹ ایکٹ2013) میں نہ صرف مارکیٹ میں زمین کی قیمت سے دوگنا معاوضہ کی بات ہے بلکہ اگر کسی منصوبہ کی تعمیر میں آپ کے مکانات آتے ہیں تو آپ کی متبادل جگہ بازآبادکاری کی بھی بات ہے۔ Right to Fair Compensation and Transparency in Land Acquistion, Rehabiliation and Resettlement Act, 2013میں جائز معاوضہ اور اراضی حصولیابی عمل میں شفافیت، بازآبادکاری اور ری سیٹلمنٹ کی بات کی گئی ہے ۔ سرکار کا کوئی بھی محکمہ کوئی بھی زمین لیتا ہے، اُس پر لینڈ ایکوئزیشن ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے اور اِس کے تحت بتائے گئے طریقہ کار کو اپنائے بغیر کوئی بھی اراضی لی نہیں جاسکتی، اگر ایسا کیاجاتا ہے تو وہ غیر قانونی ہے جس کے لئے متاثرین انصاف کے لئے عدالت سے رجوع بھی کرسکتے ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں قدم بہ قدم جوقانونی طریقہ کار بتایاگیا ہے ، اُس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو بھی متاثرین سرکار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتے ہیں۔
اراضی حصولیابی قانون 2013کل 114دفعات پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے اس میں کسی بھی اراضی کو حاصل کرنے کا سماجی اثر کیا پڑے گا کی مکمل رپورٹ تیار کرنے کی بات ہے۔ سماجی اثر جائزہ رپورٹ تیار کرنی، اُس کے لئے لوگوں کے ساتھ بات کرنا، پھر اُس اسٹڈی رپورٹ کو شائع کرنا ، ماہرین کی رائے لینا، حکومت کو اُس کی جانکاری دینا وغیرہ شامل ہے۔ دفعہ10 میں خاص کر خوراک تحفظ کی بات کی گئی ہے کہ اگر کسی کی زرعی اراضی آپ حاصل کرتے ہیں تو جو اُس کی روزی روٹی کا ذریعہ تھی پھر اُس کی فوڈ سیکورٹی کا متبادل کیا رہے گا، اِس کا انتظام بھی کرنا ہے۔
اگر کسی جگہ کوئی سڑک یا کوئی اور پروجیکٹ تعمیر کیاجانا مطلوب ہے، سب سے پہلے دفعہ11کے تحت ابتدائی نوٹس نکالنا ہے جس میں اِس بات کا ذکر کرنا ہوتا ہے کہ اتنے کلومیٹر براستہ فلاں سے فلاں تک سڑک تعمیر کی جانی ہے اور اِس کے لئے اتنی اراضی درکار ہے ۔ 12کے تحت اراضی کا سروے کرنا ہوتا ہے جس میں زمینی سطح پر کس خسرہ نمبر میں کس مالک کی کتنی زمین ہے، اُس پر مکانات، دکانات ودیگر ڈھانچے ہیں یا خالی ہے، پھلدار درخت ہیں، یادیگر کوئی بھی چیز کی تفصیلی رپورٹ تیار کرنے ہوتی ہے ، دفعہ 13 کے نقصانات کا معاوضہ بنایاجاتا ہے اور اُس پر اگر کسی کو اعتراض ہوتو دفعہ 15کے تحت اعتراضات سنے جاتے ہیں۔پھربازآبادکاری اسکیم تیار کرنا، منظور شدہ اسکیم کو دفعہ18کے مطابق پبلک ڈومین میں لایاجاتاہے، 19کے تحت پبلی کیشن کی جاتی ہے، دفعہ20کے تحت اراضی کی نشاندہی، پیمائش اور منصوبہ بندی، دفعہ21کے تحت متعلقہ افراد کو نوٹس جاری کیاجاتا ہے کہ آپ کی فلاں جگہ اتنی اراضی لی جانی مطلوب ہے، اس پر آپ اپنا دعویٰ پیش کریں۔ دفعہ23کے تحت کلکٹر جانچ پڑتال کے بعد ایوارڈ تیار کرتا ہے۔دفعہ19کے تحت ہوئی ڈکلریشن کے بعد دفعہ 5کے تحت بارہ ماہ کے اندر اندر ایوارڈ تیار کرنا ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہوسکا تو اب تک ہوئی کارروائی رد سمجھی جائے گی اور سرنو ایکوئزیشن کا عمل شروع کرنا ہوتا لیکن اس میں اس میں حکومت مدت بڑھا بھی سکتی ہے لیکن اُس کے لئے تاخیر کی وجوہات کی جوازیت بھی پیش کرنا ہوگی۔ اور اِس کو تحریری طور لکھ کر ویب سائٹ پر متعلقہ محکمہ اپلوڈ بھی کرے گا ۔زمین کی قیمت کا تعین دفعہ 26کے مطابق کیاجائے گا، جبکہ زمین پر مکانات ، ڈھانچے ودیگر اثاثوں کی قیمت کا تعین دفعہ29میں ہے۔ دفعہ37کے تحت کلکٹر معاوضہ ادا کرے گا ۔ دفعہ38یہ واضح کرتی ہے کہ اراضی کا مکمل معاوضہ ادا کرنے اور متاثرین کی بازآبادکاری کو یقینی بنانے کے بعد اراضی کو اپنے قبضہ میں تین ماہ کے اندر لیاجائے گا اور بازآبادکاری چھ ماہ کے اندر اندر کرنی ہے۔چونکہ پہلے ذکر کیاگیاکہ یہ ایکٹ114دفعات پر مشتمل ہے اور اِس میں زمین حاصل کرنے سے متعلق ہر بات کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔کسی آبپاشی پروجیکٹ کے معاملہ میں جتنا ممکن ہوسکے اگر متاثرہ کنبہ کے پاس زرعی اراضی ہے یا وہ چھوٹا کسان ہے، کو زمین کے بدلے زمین دی جائے گی اور کمانڈ ایریا میں کم سے کم ایک ایکٹر اراضی دینے کی بات ہے جبکہ درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کو دو سے ڈیڑھ ایکٹ اراضی دینے کی بات ہے۔ اس میں اگر کوئی بڑا پروجیکٹ ہے تو وہاں پر متاثرہ کنبے کو روزگار بھی دینا ترجیحی ہوگی یا اُس کو مناسب تربیت دیکر کام پر رکھاجائے یا یکمشت پانچ لاکھ فی متاثر کنبہ دیئے جائیں۔ متاثرہ کنبوں کو ایک سال کے لئے ماہانہ تین ہزار کم سے کم کے حساب سے الاؤنس بھی دینے کی بات ہے۔ متاثرہ کنبوں کی ٹرانسپورٹیشن پر آنے والے اخراجات، مویشی خانہ، دستکاروں اور چھوٹے تاجروں کا اگر کسی پروجیکٹ سے کام متاثر ہوتا ہے تو وہ بھی معاوضے کے حقدار ہیں۔ اگر کہیں آبپاشی یا پن بجلی پروجیکٹ بنتا ہے تو وہاں پر اراضی مالکان یا متعلقہ افراد ماہی گیری حقوق کے بھی حقدار ہیں۔
حکومت نے لوگوں کو حق دیا ہے کہ اگر اُن کی زمین کو سرکارکسی پروجیکٹ کے لئے حاصل کرنا چاہتی ہے تو قواعد وضوابط کے مطابق معقول معاوضہ کی ادائیگی اور دیگر نقصانات کا ازالہ کرنے کے بعد زمین حاصل کرے ، قواعد وضوابط کیا ہیں، اُس کی اراضی حصولیابی قانون 2013میںمکمل وضاحت موجود ہے اور یہ واحد راستہ اراضی حصولیابی ہے۔ کسی شخص سے بھی آپ زبردستی نہیں کرسکتے۔ اکثر یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ گاؤں میں کسی پروجیکٹ کے تحت سڑک ، اسکول یا اور کوئی سرکاری عمارت تعمیر ہوتی ہے تو متعلقہ ٹھیکیدار یا گاؤں کے چند معززین ومنتخب نمائندگان بیچ میں آکر لوگوں کو طفل تسلیاں دیکر کام شروع کروادیتے ہیں لیکن بعد میں متاثرین کو سالہا سال معاوضے کے لئے دربدر بھٹکنا پڑتا ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ عام لوگوںاِن حقوق کے بارے میں آگاہ کریں۔ انتظامیہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ کہیں بھی اراضی حصولیابی عمل شروع کرنے سے قبل وہاں کے لوگوں کو مکمل بیدار بھی کیاجائے تا کہ بروقت سارا عمل مکمل ہو، پروجیکٹ کی تعمیر وتکمیل میں غیر ضروری طوالت نہ ہو کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی ہے اُتنی ہی پروجیکٹ کی قیمت Cost Esclation ہوتی ہے ، جس کا بوجھ خزانہ عامرہ پر پڑتا ہے اور راست نقصان پھر عوام کا ہی ہوتا ہے۔
نوٹ:کالم کارہائی کورٹ جموں کے وکیل ہیں۔