غلام حسن (سوپور )
ایک تعلیم یافتہ شہری نے تجارت میں بڑی کوششوں کے ساتھ ہاتھ پاوں مارے ,مگر ناکام ہوا , مذکورہ تاجر کا ذھن بڑا آدمی بنے کا خواب دیکھ رہا تھا وہ راتوں رات امیر بنے کا شوق اور آرذو پال رہا تھا ایک دن ا
س کے ذھن نے ایک ترکیب سوچی , کیوں نہ مکھن(Butter) کا کام کیا جائے , کام لمبا ہے چلن اور منافع بہت زیادہ ہے , مذکورہ شخص نے ڈائریکٹ ملک میں کام کرنے والی ایک کامیاب اور بڑی مکھن ساز کمپنی سے رابطہ کیا اور مکھن کا ایک بہت بڑا کنٹینر (container) سستے داموں منگایا۔ مذکورہ تاجر نے ملک میں کام کرنے والی ایک صدی پرانی , اول نمبر کی مکھن ساز کمپنی کے خالی ڈبوں کی نقل دلی میں پرنٹ کرانے کے بعد تیار صورت میں حاصل کئے ۔ اب مذکورہ شخص کی ترقی کی راہ بائی پاس (By pass) سے شروع ہوئی , سستے داموں حاصل کی گئی سو گرام مکھن کی ٹکیوں کے ڈبے چینج (Change) کئے جاریے ہیں , انھیں سب سے زیادہ بکنے والی مکھن ساز کمپنی کے ڈبوں میں پیک (pack) کیا جارہا ہے, بازار میں تھوک مال سپلائی کیا جارہا ہے , تاجروں کی مانگ بڑنے لگی ہے , گاہک مکھن دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں کچھ دنوں بعد شکایت آنی شروع ہوئی , گاہک یہ شکایت کررہے ہیں کہ مکھن میں وہ ٹیسٹ نہیں ہے جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں, روز بہ روز شکایات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے , مسئلہ تاجر انجمن کے سپرد ہوا , کافی غور و خوض کے بعد تحقیقات شروع ہوئی , اجلاس پہ اجلاس ہوا , تحقیقات پہ تحقیقات ہوئی اور معملہ سے پردہ سرکنے لگا اور حقیقت سامنے آنے لگی , پردہ فاش ہوا ڈبہ اصلی ہے اور مکھن نقلی , مذکورہ شخص کی اصلیت سامنے آئی , سب تاجروں نے توبہ توبہ کی اور معاملہ یہی پہ رفع دفع کیا , پولیس خبر دار ہوئی مگر معاملہ زمین بوس ہوچکا تھا , مذکورہ شخص آج بہت بڑا نیتا ابھر کر سامنے آرہا ہے اور بھاشن پہ بھاشن عوام کو سنارہا ہے , سکینڈل کوئی تیس سال قبل کا ہے , لوگ سب کچھ بھول چکے ہیں , بڑی گیان دھیان اور غور سے نیتا جی کا بھاشن سن رہے ہیں جو بڑے دیانتدار نیتا جی کا روپ دھارن کرچکا ہے ۔