بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے اسکولوں کو کتابیں فراہم کرنے کے حوالے سے ایک بار پھر مسائل کا سامنا ہے ۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ بورڈ کی طرف سے اجرا کی جانے والی کتابوں کی کمی کا مسئلہ سامنے آیا ہے ۔ بلکہ اس طرح کی صورتحال کئی سالوں سے درپیش ہے ۔ سرکار کی خواہش ہے کہ سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں یکساں نصاب کی کتابیں پڑھائی جائیں ۔ اس حوالے سے کئی سالوں سے احکامات جاری کئے جارہے ہیں کہ یکساں نصاب کی سرکاری پالیسی کے تحت پرائیویٹ اسکول وہی کتابیں پڑھائیں جو بورڈ کی طرف سے تیار اور شایع کی جارہی ہیں ۔ پرائیویٹ اسکول ایسے احکامات پر عملدرآمد پر مجبور ہیں ۔ بصورت دیگر ایسے اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کی جاسکتی ہے ۔ بلکہ کئی اسکولوں کو اس معاملے میں جوابدہی کا سامنا کرنا پڑا ۔ سرکار کی یہ پالیسی صحیح ہے یا غلط اس بارے میں کچھ کہنا مقصود نہیں ۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اتنے مہینے گزرنے کے باوجود بورڈ کی طرف سے تاحال مطلوبہ کتابیں فراہم نہیں کی جاسکیں ۔ سرکاریا سکولوں کو یہ کتابیں مفت فراہم کی جاتی ہیں ۔ سرکاری اسکولوں کو یہ کتابیں بازار سے خریدنا پڑتی ہیں ۔ نجی اسکولوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ کتابیں کہیں بھی موجود نہیں ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو بھی مبینہ طور برائے نام ہی کتابیں فراہم کی گئی ہیں ۔ محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر مطلوبہ تعداد میں کتابیں فراہم کی جائیں گی ۔ لیکن نجی اسکولوں کو اس حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان کے لئے اس طرح کی سچویشن کا مقابلہ کرنا بہت ہی دشوار ہے ۔ یہاں طلبہ کو وقت پر ہر چیز فراہم کرنا ضروری ہے بصورت دیگر والدین اسکول مالکان سے شکایت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو کسی اور اسکول میں بھیجنے کی دھمکی دیتے ہیں ۔ کتابوں کی اس طرح کی نایابی طلبہ کے درس و تدریس کے عمل کو متاثر کررہی ہے ۔ چار ہفتے پہلے نئے تعلیمی سال کا آغاز کیا گیا ۔ ڈائریکٹر ایجوکیشن کی طرف سے اس بات پر نپے تلے بیانات سامنے آئے کہ اسکولوں میں بر وقت نئے تعلیمی سال کے لئے درس و تدریس کا آغاز کیا گیا ۔ اب معلوم ہورہاہے کہ سارا عمل کاغذی ہے ۔ اسکولوں میں آنے والے طلبہ کے پاس ایک دو مضامیں کے سوا نصابی کتابیں موجود ہی نہیں ہیں ۔ سرکاریا سکولوں کے اساتذہ آئے دن دفتروں کے چکر کاٹتے ہیں تاکہ مفت کتابوں کے حوالے سے صحیح معلومات حاصل کرسکیں ۔ لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ اس حوالے سے کیا جواب دیا جائے ۔ خاص طور سے نجی اسکولوں کے پاس اس حوالے سے کوئی جانکاری نہیں ہے ۔ ایسے اسکولوں کے والدین سخت پریشان ہیں اور دوڑ دھوپ میں لگے ہیں کہ کتابیں حاصل کرسکیں ۔ لیکن ساری کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں ۔ اس وجہ سے طلبہ کو سنگیں پریشانیوں کا سامنا ہے ۔
سرکار نے سرکاری اور نجی اسکولوں کے اندر یکسان نصاب کا جو قدم اٹھایا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ نجی اسکولوں کے استحصال کی پالیسی کو روکنا مقصود ہے ۔ پرائیویٹ اسکول مالکان کتابوں ، اسٹیشنری اور وردی کو لے کر والدین کو دو دو ہاتھ لوٹتے ہیں ۔ والدین اکثر شکایت کرتے ہیں کہ غیر ضروری فیس اور دوسری اشیا کی فراہم کے پس پردہ ان سے حد سے زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے ۔ ادھر بچوں سے متعلق کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نجی اسکولوں میں بلا وجہ ایسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو کم سن طلبہ کے لئے پریشانیوں کا باعث بنتی ہیں ۔ درجنوں کتابیں نصاب میں شامل کرکے ان کا بوجھ کم سن بچوں پر لادا جاتا ہے ۔ ان تنظیموں نے ماہرین تعلیم سے مشورہ کرکے اسکول بیگ کا وزن کم کرنے کا مشورہ دیا ۔ ایسے مشورے نہ صرف سرکار نے قبول کئے بلکہ عدالتوں کی طرف سے بھی اس حوالے سے احکامات جاری کئے گئے ۔ بچوں پر ان کی سکت سے زائد کتابوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے سخت پالیسی اختیار کرتے ہوئے پرائیویٹ اسکولوں کے لئے گائیڈ لائنز جاری کی گئیں ۔ وادی میں ناظم تعلیمات کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ یکسان تعلیمی نصاب پر عمل کیا جائے ۔ ایسے نصاب کو رائج کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہی کتابیں پڑھائی جائیں جو بورڈ کی طرف سے تیار کی جاتی ہیں ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ بورڈ ماہرین کے ہاتھوں ایسی کتابیں تیار کراتا ہے ۔ تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ ان کتابوں کی چھپائی کبھی بھی وقت پر نہیں ہوتی اور اسکولوں کو وقت پر فراہم نہیں کی جاتی ہیں ۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس کے لئے مطلوب رقم وقت پر مہیا نہیں کی جاتی ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ بورڈ کو ایسی کتابیں ضرورت کے مطابق ملتی ہیں نہ تعلیمی سال شروع ہونے سے پہلے ان کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ بورڈ اس کا ذمہ دار محکمہ تعلیم کو گردانتا ہے جبکہ محکمہ تعلیم کے آفیسر اس حوالے سے کوئی ٹھوس جواب نہیں دے پاتے ہیں ۔ اس درمیان طلبہ کا قیمتی وقت ضایع ہوتا ہے ۔ ایسی صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ ہر سال یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ لیکن وقت آنے پر یہی کچھ دیکھنا پڑتا ہے ۔ ضروری ہے کہ اس مشکل کو دور کیا جائے ۔
