یونین پبلک سروس کمیشن نے پچھلے دنوں سیول سروسز کی خاطر لئے گئے امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا ۔ ان امتحانات کے انعقاد کا سلسلہ سال 2023 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دو مہینوں کے لئے انٹرویو کا سلسلہ چلا اور اب ان کے نتائج سامنے لائے گئے ۔ ان امتحانات میں مبینہ طور ایک ہزار سولہ امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا ہے ۔ امتحانی نتائج پر مختلف حلقوں نے اطمینان کا اظہار کیا ۔نتائج سامنے آنے کے بعد معلوم ہوا کہ آدتیہ سری واستو نے پہلی پوزیشن اور انیمیش پردھان نے دوسرا مقام حاصل کیا ہے ۔ جبکہ اننیا ریڑی کو تیسری پوزیشن حاصل ہوئی ہے ۔ سری واستوا نے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد الیکٹریکل انجینرنگ میں گریجویشن کی ہے ۔ بعد میں اسی سبجکٹ کو اوپشنل سبجکٹ کے طور اختیار کرتے ہوئے سیول سروسز امتحان میں حصہ لیا اور پورے اعزاز کے ساتھ کامیابی حاصل کی ۔ عجیب اتفاق ہے کہ امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی انیمیش نے بھی انجینرنگ کی ڈگری حاصل کرکے سیول سروز امتحان میں شرکت کی ۔ پہلی پانچ پوزیشنیں حاصل کرنے والے امیدواروں میں تین مرد اور دو خواتین شامل ہیں ۔ جبکہ کل کامیاب قرار دئے گئے امیدواروں میں 664 مرد اور 352 خواتین ہیں ۔ یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ کمیشن کی طرف سے ایسے امتحانات بہتر طریقے سے منعقد کئے جارہے ہیں ۔ ان امتحانات کے حوالے سے کسی طرح کے شک و شبہات کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے ۔ بہت سے ادارے ہیں جن پر اکثر دھاندلیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں ۔ خاص طور سے سرکاری اداروں کے اندر تقرریاں عمل میں لانے والے بیشتر اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رشوت اور اقربا نوازی سے کام چلایا جاتا ہے ۔ ایسے الزامات سیول سروسز امتحانات سے متعلق تاحال سامنے نہیں آئے ہیں ۔ اس وجہ سے یونین پبلک سروس کمیشن کو ایک بااعتبار ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ سیول سروسز کے لئے امتحان ہر سال تین مرحلوں میں منعقد کئے جاتے ہیں ۔ پہلے تمام فارم داخل کرنے والے امیدواروں کا امتحان لیا جاتا ہے ۔ اس امتحان میں پاس ہونے والے امیدواروں کو مطلوبہ نشستوں کے اعتبار سے دوسرے مرحلے کے امتحان کے لئے بلایا جاتا ہے ۔ مین ایگزام میں پاس ہونے والے امیدواروں کا بعد میں انٹرویو لیا جاتا ہے اور حتمی فہرست اسی اعتبار سے مشتہر کی جاتی ہے ۔ کامیاب امیدواروں کی تقرری انتظامیہ ، بیرونی سروس اور پولیس سروس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر کی جاتی ہے ۔
سیول سروسز کے لئے امتحانات کو ملک کا سب سے اہم امتحان مانا جاتا ہے ۔ اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کو ملک کے معاملات چلانے کے لئے تعینات کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان خاص طور سے ذہین نوجوان اس امتحان کو پاس کرنے کے لئے سخت محنت سے کام لیتے ہیں ۔ مختلف طبقوں اور زمروں کے ساتھ تعلق رکھنے والے نوجوان اس امتحان کو پاس کرکے اپنے خاندان اور اپنی برادری کا سر فخر سے اونچا کرتے ہیں ۔ مسلمان اقلیت کے لوگ پچھلے کئی سالوں سے کوشش کررہے ہیں کہ ایسے طبقے کے نوجوان زیادہ تعداد میں سیول سروس امتحان میں کامیابی حاصل کرپائیں ۔ اس غرض سے ذہین اور خواہش مند امیدواروں کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ بلکہ ان کے لئے مفت کوچنگ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود تاحال مسلمان امیدوار زیادہ تعداد میں اس امتحان کو پاس نہیں کرپارہے ہیں ۔ اگرچہ حالیہ امتحان میں مسلمان امیدوار پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ تعداد میں پاس ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود کل آبادی کے مقابلے میں یہ تعداد بہت کم ہے ۔ کامیاب مسلم امیدواروں کا حصہ محض 4.9 فیصد ہے جو آبادی کے اعتبار سے نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کل 51 مسلمانوں نے یہ امتحان پاس کیا ہے ۔ ٹاپ سو کامیاب امیدواروں میں صرف 6 مسلمان نام نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح ٹاپ پانچ میں دو مسلم امیدوار پائے جاتے ہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امسال جامعیہ ملیہ اسلامیہ رہائشی کوچنگ سنٹر میں تربیت حاصل کرنے والوں نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس کوچنگ سنٹر سے کل 31 طلبہ نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ ایسے کامیاب امیدواروں میں کئی مسلمان نام موجود بتائے جاتے ہیں ۔ اس کوچنگ اکاڈمی نے مسلسل کئی سالوں سے اچھے نتائج ظاہر کئے ہیں ۔ بعض اداروں کی طرف سے کی گئی سروے سے پتہ چلا ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ سیول سروسز امتحان میں کافی دلچسپی دکھارہے ہیں ۔ اگرچہ ملائوں کا بڑا طبقہ مسلمانوں کو ایسے فیلڈ سے دور رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ تاہم عام مسلمانوں کی اس طرف دلچسپی میں ہرسال اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ امسال دیوبند کے دارالعلوم سے فارغ ہوئے ایک مولوی صاحب نے بھی اس امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کئی باشعور مسلمان اپنے صدقات اور زکوات کو ان کوچنگ مراکز کے حوالے کرتے ہیں جو سیول سروسز امتحان پاس کرانے میں مسلمان امیدواروں کی مفت تربیت کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ دوسرے مدوں پر خیرات خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ اسے مسلمان طلبہ کی جدید تعلیم سے آراستہ کرنے پر خرچ کیا جائے ۔ اس رجحان کو فروغ دیا جائے تو یقینی طور مسلمانوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہوگا ۔ مسلمانوں کے لئے بحیثیت مجموعی یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ نوجوان بڑی تعداد میں ایسے مقابلاتی امتحانات میں شریک ہوتے ہیں ۔ اگرچہ تاحال مطلوبہ تعداد میں انہیں کامیابی نہیں ملتی تاہم اس رجحان میں اضافہ پایا جانا کامیابی کی طرف اہم پیش رفت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس رجحان کی پرورش کی جائے اور مسلم طلبہ کو مختلف میدانوں میں کمال دکھانے کی طرف راغب کیا جائے ۔