تحریر:گلفام بارجی
ہر ایک ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ ان کی اولاد اپنے والدین کی کفالت کرے اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے۔لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ الله تعالٰی کو کیا منظور ہوتا ہے اور کیا کرنے والا ہے۔ کس کی موت کہاں اور کیسے ہوجائے یہ صرف اور صرف خداوند کریم کے حد اختیار میں ہے۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتاہے تو اس بچے کے والدین اس بچے کےمستقبل کےلئے بڑے بڑے خواب سجا کے رکھتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دینے اور ان کا مستقبل سنوارنے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں بعد میں قسمت کی بات ہوتی ہے کہ اوسط درجے کے گھرانے میں پرورش پانے والا بچہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے سجائے ہوئے سپنوں کو پورا کرتاہے یا نہیں۔اسی طرح کے کچھ سپنے گنڈبل سرینگر کے ان بدنصیب والدین نے اپنے ان بچوں کے مستقبل کے لئے سجائے رکھےتھے جو بچے صبح سویرے اپنے والدین سے یہ کہکر اسکول کے لئے نکلے کہ ابو میں اسکول جارہا ہوں اور جب آپ شام کو کام سے گھر واپس آؤگے تو میرے لئے فلاں چیز لےکے آنا۔ ممی میں اسکول جارہا ہوں اور جب میں اسکول سے واپس آؤں گا تو میرے لئے کھانے کے لئے فلاں چیز بناکے رکھنا۔ان کے والدین کو یہ فکر لگی ہوگی کہ اسکول سے جب ہمارے بچے واپس آئیں گےتو جو فرمائش ان بچوں نے اپنے والدین سے کی اس فرمائش کو کسی بھی حال میں پورا کرنا ہے۔کیونکہ انسان کی فطرت ہےکہ وہ اپنے معصوم بچے کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔جب یہ ننھے منے بچے اپنے گھروں سے اسکول کے لئے نکلے ہوں گے تو راستے میں چلتے چلتے انہوں نے ایک دوسرے کو ضرور یہ کیا ہوگا کہ شام کو میرے ابو میرے لئے فلاں چیز لائے گا کسی نے یہ کہاہوگا ک میری ممی میرے لئے فلاں چیز تیار کرکے رکھے گی اور اسکول سے واپسی پر میں اس چیز کو مزے سے کھاؤں گا۔لیکن افسوس ان والدین اور گنڈبل کی بستی کو کیا معلوم تھا کہ ان بچوں کے اسکول روانہ ہونے سے صرف چند پل بعد گنڈبل سرینگر کی پوری بستی کے ساتھ ساتھ پوری وادی ماتم میں ڈوب جائے گی۔گنڈبل کے عوام کو کیا معلوم تھا کہ بچوں کے اسکول روانہ ہونے کے صرف چند ہی منٹ بعد گنڈبل کی بستی پر قیامت آنے والی ہے۔جب یہ ننھے منے بچے ہنستے ہنساتے موت کی اس کشتی میں سوار ہوئے ہونگے تو ان کے وہم و گماں میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ جس کشتی میں وہ سوار ہورہے ہیں اور صرف چند سیکنڈ کے بعد دریائے جہلم ان معصوم اور ننھے منے بچوں کو اپنا نوالہ بنانے میں عار محسوس نہیں کریگا اور ایساہی ہوا۔ جب یہ بچے دنیا سے بے خبر دریائے جہلم کے کنارے کھڑی موت کی اس کشتی میں سوار ہوگئے جو کشتی ان بچوں کا بے صبری سے انتظار کررہی تھی۔حالانکہ چند بچوں کو اپنے والدین بھی ساتھ تھے اور وہ بھی موت کی اس کشتی میں سوار ہوگئے اور جہلم کا تھوڑا فاصلہ طے کرنے کےبعد جب موت کی یہ کشتی دریا کے درمیان پہنچ گئی تو اچانک وہ رسی ٹوٹ گئی جس رسی کے سہارے موت کی اس کشتی میں سوار یہ بدنصیب ننھے منے بچے دریا پارکرتے تھے اور آناً فاناً موت کی یہ کشتی دریا کے بیچ زیرِ تعمیر لوہے کے پل کے ایک پول سے ٹکرائی اور جس سے موت کی اس کشتی کے دوٹکڑے ہوگئے اور کشتی میں کہرام مچ گیا یہ ننھے منے بچے یہ سمجھتے سے قاصر تھے کہ آخر وہ کریں توکریں کیا لیکن ہلچل کے اس عالم میں موت کی اس کشتی میں سوار تمام لوگ بے یار و مدد گار پانی کے اوپر تیرنے لگے اور اپنی زندگیوں کو بچانے کی بےحد کوشش کرنے لگے لیکن موت سے انجان ان ننھے منے بچوں کو کیا معلوم تھا کہ دریائے جہلم ان کو اپنا نوالہ بنانے کے لئے کب سے بے صبری سے انتظار کر رہاہے۔ آپ یقین کریں یہ مضمون تحریر کرتے کرتے میرا قلم کانپ رہا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں کلیجہ منہ کو اتا ہے لیکن کوشش کررہا ہوں ان بچوں کی اس چیخ و پکار کو بھول جانے کی جس چیخ و پکار کو ان بچوں نے ڈوبتے ڈوبتے بلند کی ہوگی۔حالانکہ اس سانحہ میں کچھ بچے اور بڑے تو بچ گئے لیکن کچھ ننھے منے پھول دریائے جہلم کے نظر ہوگئے۔یہاں پر سلام اس غیر مقامی بھائی کو جو بھائی دریا کے دوسری طرف بٹوارہ ایریا سے مزدوری کے لئے کہیں جا رہا تھا اور جب اس نے دیکھا کہ دریائے جہلم کئی بےسہارا اور معصوم بچوں کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کررہاہے تو اس غیر مقامی بھائی نےاپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئےدریا میں چھلانگ لگادی اور تین معصوم ننھے منے بچوں کو دریائے جہلم کا نوالہ بننے سے بچا لیا۔ایک ماں جس نے اپنے دو لختِ جگروں کے ساتھ اپنی جان دی اور اس نے ان دونوں لخت جگروں کو ایک ساتھ جنم دیا تھا اور یہ جڑواں بھائی ماں کے ساتھ ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان دو جڑواں بھائیوں میں سے ایک بھائی مقامی مسجد میں فجر کی ازاں بھی دیا کرتا تھا اور حال ہی میں اعتقاف سے فارغ ہواتھا۔مقامی لوگوں کے مطابق جب ان ماں بیٹوں کی لاشوں کو دریا سے نکالا گیا تو یہ دونوں جڑواں بھائی اپی ماں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے کلیجہ منہ کو اتا ہے اور جب ماں کے جنازے کے پیچھے ان دونوں جڑواں بھائیوں کے جنازے کو آخری آرام گاہ کی اور لیا جارہا تھا ہرطرف رقت آمیز مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے ہر آنکھ نم تھی۔ سلام اس ماں کو اور سلام اس ماں کو جس ماں نے اپنے لخت جگر کو دریائے جہلم کا نوالہ بنتے خود اپنی آنکھوں سےدیکھا۔ایک باپ جو اپنی چار بہنوں اور اپنی بوڑھی ماں کا اکلوتا سہارا تھا وہ بھی موت کی اس کشتی میں سوار ہوکر اپنے لخت جگر کے ساتھ بےرحم دریائے جہلم کا نوالہ بنا سلام اس باپ پر اور سلام گنڈبل سرینگر کے ان والدین پر جن والدین نے اپنے لخت جگروں کو گنڈبل سانحہ میں کھودیا۔دوسری طرف جب یہ خبر وادی میں پھیل گئی تو پوری وادی میں ماتم کی لہر چھاگئی اور ہر آنکھ نم ہوگئی چاروں طرف آہ وبکا کی صدائیں آرہی تھی۔دوسری طرف جموں و کشمیر پولیس،SDRF،نیوی کے ماہر غوطہ خور،آرمی کے ماہر غوطہ خور اور مقامی ماہر غوطہ خور دریائے جہلم میں لاشوں کو تلاش کر رہی تھی تو دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر گنڈبل کی سوگوار بستی اور وادی کے اطراف و اکنافِ سے آئے ہوئے لوگ زارو قطار رورہے تھے۔کاش گنڈبل اور بٹوارہ کو اپس میں ملانے والا دریائے جہلم پر زیرِ تعمیر لوہے کا پل قبل از وقت مکمل ہوا ہوتا توشاید گنڈبل میں قیامت صغریٰ بپانہ ہوتی۔ دریائے جہلم ان ننھے منے معصوم بدنصیب بچوں کو اپنا نوالہ نہ بناتا۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی اور بوڑھی ماں کا سہارا اپنے معصوم بچے کے ساتھ دریائے جہلم کے ہتھے نہ چڑھتا۔ایک بدنصیب ماں کا جنازہ اپنے دو لخت جگروں کے ساتھ نہ اٹھتا۔اس لئے متعلقین کو چاہئے کہ دیگر تعمیراتی کاموں سے پہلے دریائے جہلم پر زیر تعمیر تمام فٹ برجوں کو جلد از جلد مکمل کریں تاکہ آنے والے وقت میں گنڈبل جیسا سانحہ دوبارہ پیش نہ آئے کیونکہ واقعی سانحہ گنڈبل سرینگر قیامت سے کم نہیں تھا۔الله تعالٰی ان تمام مرحومین کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کے ساتھ ساتھ گنڈبل کے عوام کو یہ صدمہ عظیم برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔