تحریر:شازیہ اختر شاہ
جموں وکشمیر کے سرکاری اسکولوں میں 2005سے پہلے بھی بچوں کو دوپہر کے کھانے کی اسکیم چلائی گئی تھی۔ لیکن 2005سے باضابطہ میڈے میل سکیم کے نام سے شروع کیاگیاہے۔ جو تاقت چل رہی ہے۔ اس سکیم کے لئے ہر سرکاری اسکول میں کھانا پکانے والی تعینات کی گئی ہیں۔ جو دوپہر کا کھانا پکاتیں اور بچوں کو کھلاتیں ہیں۔اس کے لئے پہلے پانچ سو رپیہ مختص کیاگیا تھا۔ پھر 2005سے اب تک ان کھانا پکانے والیوں کی تنخواہ ایک ہزار روپیہ ماہانہ کیاگیا۔آج19سال بعد 2024 میں بھی وہی ایک ہزار روپیہ دے جا رہے ہیں۔ اگر چہ وہ اسکول کے اوقات کار میں حاضر ہوکر بچوں کو کھانا کھلانے اور برتن مانجنے تک وہی رہتی ہیں۔ اسکولوں میں تعینات ان کھاناپکانے والیوں کے حقوق کو لیکر سماجی کارکن محمد اسلم تانترے جن کی عمر قریب 50سال ہے، ان کا کہناہے کہ ”مرکزی سرکار اور جموں وکشمیر انتظامیہ کی جانب سے مٍڈل اسکول تک کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کا انتظام کیاگیا۔ جس کے لئے اسکولوں میں کھانا پکانے والی خواتین کو تعینات کیاگیاتھا۔ جن کو یونین ٹراٹری سے پہلے ہی ایک ہزار روپیہ اجرت دیا جانا مختص کیاگیاتھا۔ تاہم ابھی تک وہی ایک ہزار اور وہ بھی کئی کئی ماہ تک ملتاہی نہیں ہے۔ جبکہ اسکول کے لئے ان ہی لوگوں نے زمینیں وقف کی تھیں۔ ان کے گھروں سے ہی ان کھانا پکانے والیوں کی تقرری کی گئی تھی۔ افسوس اب یہاں جموں وکشمیر میں یونین ٹیراٹری غرض سب نظام ہی بدل چکاہے۔پر ان غریب نادار بے کس خواتین کا نہ ہی اجرت وقت پر دی جاتی ہے اور نہ ہی بڑھائی جاتی ہے۔“
محمد اسلم تانتر کہتے ہیں کہ ”ماضی کے مقابلہ میں دور حاضر میں خواتین کے حقوق کو لیکر مرکزی اور ریاستی حکومتیں بڑے پیمانے پر اقدام اٹھا رہی ہیں۔ ملازمتوں سے لیکر پنچایتوں اور اسمبلی سیٹوں تک حقوق فراہم کئے جارہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی دیہی ہندوستان کی خواتین پوری طرح حقوق سے بیراور نہیں ہوسکی ہیں۔ جموں وکشمیر کا ضلع پونچھ، جہاں پنچائیتوں کے تھری ٹئیر سسٹم کی سربراہی بھی ایک خاتون کے پاس ہے اور مختلف پنچائیتوں کی سرپنچ بھی خواتین ہیں۔ تاہم ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے دیہی علاقوں میں خواتین ابھی بھی اپنے حقوق سے ناآشناہیں۔ چاہے آنگن واڑی ورکر، ہلپر ہوں یا آشا ورکر یاپھر اسکولوں میں میڈے میل کے لئے تعینات ہلپر ہوں، سب کی سب بخوبی اپنی ڈیوٹیاں انجام دیتی ہیں۔جبکہ ان کے لئے ایک ہزار، دوہزاریا تین ہزار اجرت سرکاری طور پر واگزار کی جانی طے پائی جاتی ہے جو کہ ان کے ساتھ ایک مزاق کہاجائے تو بے جانہ ہوگا۔ لیکن وہ اجرت اور تنخواہ بھی کئی کئی ماہ تک ادا نہیں کی جاتی ہے۔“ وہ بتاتے ہیں کہ تحصیل منڈی کی کئی خاتون جو میڈے میل کے لئے ہیلپر کے طور پرتعینات ہیں۔یہ اپنے گھریلو کام و کاج اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر صبح اسکول وقت پر پہنچ کر اسکول کے بچوں کو میڈے میل بنا کر دیتی ہیں۔وہ صبح آٹھ بجے اسکول پہنچتی ہیں اور شام کے تین 3 بجے گھر واپس جاتی ہیں۔ وہ پورا دن اسکول میں گزار دیتی ہیں۔ اتنا سب کرنے کے باوجود بھی انہیں وقت پر اجرت نہیں دی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں ظریفہ بیگم عمر 35 سال، کا کہنا ہے کہ ”میں گورنمنٹ پرائمری اسکول رتن کاٹھاں میں ہیلپر کا کام کرتی ہوں۔ہر روزوقت پر اسکول پہنچتی ہوں۔ جہاں رسوئی خانہ کی صفائی برتنوں کی صفائی اور دوسرے گھر سے پانی لاکر بچوں کے لئے مینوں کے مطابق میڈے میل بناتی ہوں۔ پھر دوپہر کے وقت کھانا کھلاکر برتن اکٹھے کرکے دھوکر گھر آتی ہوں۔ جب تک دو یا تین بج جاتے ہیں۔غرض پورا دن چلا جاتا ہے اور گھرواپس آکر گھر کا کام کاج کرتے کرتے رات گزر جاتی ہے۔میرے پانچ بچے ہیں۔ جنہیں گھر پر اکیلا چھوڑ کر اور اپنے گھریلو کام کاج چھوڑ کر صبح اسکول پہنچتی ہوں۔دن بھر اسکول میں رہتی ہوں۔ اس دوران نہ ہی میں گھر کا کام کاج کر سکتی ہوں اور نہ ہی میں اپنے بچوں کی اچھی پرورش کر سکتی ہوں۔ میں بہت غریب اور مظلوم ہوں۔ سرکار نے ماہانہ ایک ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔لیکن ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔ صرف مجھے ہی نہیں، بلکہ کسی بھی ہیلپر کو بھی نہیں ملا۔ مارچ 2023 کو ہمیں تنخواہ ملی تھی۔ اس کے بعد آج تک ہمیں کچھہ نہیں ملا۔ پورا دن یہاں رہتی ہوں نہ گھر کا کام کاج کر سکتی ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا کاروبار کرسکتی ہوں کہ کچھ کما سکوں۔اسی تنخواہ کے سہارے بیٹھ کر دن گزارتی ہوں۔“وہ کہتی ہیں کہ ہم گھر کے 7افراد ہیں۔ دن بہ دن گھر کے خرچے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ جیسے کہ بچوں کی پڑھائی کا خرچہ اور گھر کے دیگر اخراجات بھی ہیں۔خرچے تو تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں لیکن آمدنی کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک سال سے ہمیں تنخواہ ہی نہیں دی جارہی ہے۔ ایک یا دو اسکولوں میں کھاناپکانے والیوں کا نہیں بلکہ ضلع پونچھ کے ہر سرکاری اسکول میں تعینات ہماری جیسی ملازمین کوپریشانیاں ہیں اور اب معاملہ احتجاج تک بھی پہونچ چکاہے۔
منڈی تعلیمی زون کے دفتر سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو یہ جانکاری ملی کہ منڈی کے تمام پرائمری اور مڈل اسکولوں میں تعینات کو ورکروں کی تنخواہ مرکز حکومت کی جانب سے 900جبکہ جموں وکشمیر یونین ٹراٹری کی جانب سے 100روپیہ طے ہے۔اس طرح کل ماہانہ اجرت ایک ہزار روپیہ انوائیس کے زریعہ دی جاتی ہے۔ جو پچھلے مارچ 2023تک مل چکی ہے۔ اس کے بعد ابھی پیسہ نہیں آیاہے۔ان کا سرکاری کھاتے میں کچھ نہیں صرف حاضری بیس پر ہی ان کو اجرت دی جاتی ہے۔ اب اس بات سے اندازا لگایاجاسکتاہے کہ کیا یہ خواتین کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہے؟ کیا یہی ہیں خواتین کو خود مختار بنانے کے سرکاری دعوے؟ کیا تیس روپیہ یومیہ اجرت پر چھ گھنٹے ڈیوٹی خواتین کے ساتھ مزاق نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے؟متعلقہ محکمہ اور افسران کو یہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ مڈے ڈے میل پکانے والی خواتین کے گھر کا ہی چولہا آخرٹھنڈا کیوں ہو رہا ہے؟(چرخہ فیچرس)