تحریر: محمد انیس
مسلمانوں کے عائلی قانون کے حوالے سے مسلم پرسنل لا بورڈ کے پاس اب زیادہ کام نہیں ہے ۔ پرسنل لو ملت کا کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے کہ جس کیلئے قومی سطح پر کسی مخصوص بورڈ کی ضرورت ہو۔ تین طلاق کا قانون پاس ہوچکا ہے۔ یکساں سول کوڈ بھی آنے والا ہے ۔ اب اس میں بورڈ کے کرنے کا کوئی حقیقی کام نہیں ہے ۔ بورڈ کی قوی ہیکل جسامت کے اعتبار سے قبل میں بھی اس کی سرگرمیاں محدور نوعیت کی تھیں۔ بدلتے حالات کے تحت اب یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا نام اور کام دونوں میں نمایا تبدیلی آئے ۔ اس کا نام مسلم پرسنل لا بورڈ سے تبدیل کرکے مسلم بورڈ رکھا جائے ۔ اور کام میں تبدیلی لاکر مسلمانوں کے زیادہ اہم کام اس کے ذمہ ہونا چاہئے ۔ اس وقت مسلمانوں کے سامنے دو اہم کام ہیں جو انتہائی سنگین اور فوری توجہ کے طالب ہیں ۔
پہلا ہے legal matters پر مظلوم مسلمانوں کی اعانت اور دوسرا ہے ملکی سطح پر بیت المال کا قیام۔
یہ دونوں کام مسلم بورڈ کے دائرہ کار میں آنا چاہئے۔ legal matters ایک بڑا میدان ہے ۔ ہزاروں بے قصور مسلمان اس میں پھنسے ہیں ۔ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر جاتی ھے ۔ تب جاکر انہیں چھوڑا جاتا ہے اس نوٹ کے ساتھ کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ اسی طرح ہمارے یہاں زکوٰۃ کے مد میں کافی پیسے آتے ہیں۔ مگر تقسیم زکوٰۃ کا نظام درست نہیں ہے ۔ اس لئے پیشے ور بھکاریوں کی تعداد ہر روز بڑھتی جارہی ہے ۔ ملکی، ریاستی اور ضلعی سطح پر اگر سنٹرل مسلم بورڈ کے ماتحت بیت المال کا قیام عمل میں آئے تو تقسیم زکوٰۃ کا مسئلہ نہ صرف حل ہوگا بلکہ اس کے بڑے فوائد حاصل ہوں گے ۔
زکوٰۃ کے حوالے سے قومی ، ریاستی ، ضلعی اور بلاک سطح پر بیت المال کا قیام اس لئے بھی ضروری ھے کہ ہمارے یہاں تقسیم زکوٰۃ کا کوئی منظم طریقہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں دن بہ دن پیشے ور بھکاریوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ ملک میں مسلمانوں کی تعداد 14.2 فیصد ہے ، لیکن مسلم بھکاریوں کی تعداد دو گنا یعنی 28 فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔ اور یہ تعداد ہرسال بڑھتی جارہی ہے۔ ایسی حالت میں ملت کو اٹھانا تقریباً ناممکن ہے ۔ صرف حکومت کو کوسنے سے مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔
بہرکیف ، اگر ہم چاہیں تو زکوٰۃ کا بہتر نظم کرکے اس فیگر کو دھیرے دھیرے صفر پر لاسکتے ہیں ۔ کئی چھوٹے چھوٹے مقامات پر ایسا تجربہ ہوا ہے کہ ضرورت مندوں کی شناخت کرکے انہیں اتنی رقم دے دی گئی ہے کہ وہ کام پر لگ گئے اور معذوروں کیلئے مستقل وظیفہ جاری کردیا گیا ۔ یہ کام اگر ملکی سطح پر اختیار کیا جائے تو ملت کی غریبی اور محتاجی ختم ہوسکتی ہے اور پیشے ور بھکاریوں کا جنجال بھی ختم ہوجاۓ گا ۔ ایران میں ایک شہر ہے ۔ نام ہے تبریز ۔ یہ شہر بھکاریوں سے آزاد ہے ۔ شہر میں ضرورت مند تو موجود ہیں مگر کوئی بھکاری نہیں ہے ۔ وہاں لوگوں نے کچھ اس طرح بیت المال کا نظم کیا ہے کہ ہر مستحق آدمی کے دروازے پر پہلی تاریخ کو پورے مہینے کا راشن پہنچا دیا جاتا ہے ۔
کیا ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ منظم کوشش سے قومی سطح پر ہمارے یہاں زکوٰۃ کی کتنی رقم جمع ہوسکتی ہے اور اس سے کتنا فائدہ ہوسکتا ھے ؟ ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباًً بیس کروڑ ہے ۔ اگر اس میں پانچ فیصد لوگ بھی اہل نصاب ہیں تو اہل نصاب کی تعداد دس لاکھ ہوتی ہے ۔ اوسطاً ایک شخص کی زکوٰۃ اگر پانچ ہزار مانا جائے ، تو کل رقم ہوجائے گی پانچ سو کروڑ ۔ فرض کیجئے اس رقم سے ہمیں بیس ہزار معذوروں کو ہر مہینہ پانچ ہزار کی شرح سے stipend salary دینا ہے ، تو ایک شخص کیلئے سالانہ وظیفے کی رقم ہوجاتی ہے 60 ہزار ۔ اس حساب سے بیس ہزار معذوروں کیلئے کل رقم درکار ہوگی 120 کروڑ۔ دیکھئے کہ اس کے بعد بھی بیت المال کے پاس 380 کروڑ روپئے بیلینس رہ جاتے ہیں ۔ اس خطیر رقم سے ان بھکاریوں کو کام پر لگایا جاسکتا ہے جو کام کرنا چاہتے ہیں ۔ کسی کو toto دے دیا ، کسی کو auto. کسی کی دکان لگادی، کام سیکھنے کیلئے جگہ جگہ ٹریننگ سینٹر کھول دیا، وغیرہ وغیرہ ۔
اس کے علاوہ اس پیسے کو legal cell میں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ زکوٰۃ کا ایک مد یہ بھی ہے کہ جیل میں جن مسلمانوں کو ناحق بند کیا گیا ھے ان کو چھڑایا جائے ( فی الرقاب۔ سورہ توبہ: 60)