ماہ رمضان کے آخری ایام ہیں ۔ کئی لوگ ان ایام کو اللہ کی عنایت سمجھ کر عبادات میں مشغول رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک طرف مقدس ایام کی تقدیس کا معاملہ ہے ۔ دوسری طرف تجارت پیشہ افراد ان ایام کا فائدہ اٹھاکر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔ ہر شے کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ بچوں کی پسند کی وہ چیزیں جن پر ٹیکس نہیں لگتا ان کے دام بھی بڑھادئے گئے ہیں ۔ مرغ فروش اپنے طور گاہکوں کو لوٹنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ قصائی مسلسل ریٹ میں اضافہ کررہے ہیں ۔ برابر وزن کا گوشت دیتے ہیں نہ کوئی مقررہ ریٹ انہیں قبول ہے ۔ اپنی پسند کے باٹ لگاتے ہیں اور قیمت بھی اپنی مرضی سے وصول کرتے ہیں ۔ بیکری والوں کے لئے سرے سے کوئی ریٹ نہیں ہے ۔ وہ دو دو ہاتھ صارفین کو لوٹ رہے ہیں ۔ ان کے لئے لوٹ کھسوٹ جیسے قانونی طور جائز قرار دی گئی ہے ۔ یہاں اخلاقیات کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ۔ اس طرح سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری حالت کیا ہے ۔ سب کچھ بگڑ گیا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ دہی عروج پر ہے ۔ مزدوروں کی محتاجی کا پاس و لحاظ کئے بغیر ان کی جیبیں خالی کی جارہی ہیں ۔ کل یہی مزدور ہمارے گھروں میں کام کرنے آتے ہیں تو ایک دن کے کام پر سات دن لگاتے ہیں ۔ پھر ہر کوئی ان کی کاہلی اور سستی پر لکچر دینے لگتا ہے ۔ ہمارے لئے کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہے ۔
عید الفطر کے آنے میں ایک یا دو دن رہ گئے ہیں ۔ اس موقعے پر چاہئے تو یہ تھا کہ دکاندار قیمتوں میں چھوٹ کا اعلان کرتے ۔ ماہ رمضان کے دوران ہر دکان دار نے خوب کمائی کی ۔ گوشت فروخت کرنے والوں نے بڑے پیمانے پر گوشت فروخت کیا ۔ ماہ رمضان کے آغاز پر ہی ریٹ بڑھاکر فی کلو قیمت سات ساڑھے سات سو روپے کردی گئی ۔ اس کے لئے سرکار کی طرف سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا بلکہ قصائیوں نے خود ہی اس ریٹ پر گوشت فروخت کرنا شروع کیا ۔ لوگوں نے شکایت کی ۔ لیکن کسی نے توجہ نہ دی ۔ اب مبینہ طور گوشت آٹھ سو سے لیکر ایک ہزار روپے فی کلو کے ریٹ سے فروخت کیا جارہا ہے ۔ انتظامیہ کی اس حوالے سے خاموشی معنی خیز قرار دی جارہی ہے ۔ قصائیوں کی دیکھا دیکھی میں بوئلر مرغ فروخت کرنے والوں نے بھی اپنی پسند کے ریٹ لگادئے ۔ سبزی جو کہ ان دنوں کم ہی فروخت ہوتی ہے سونے کے بھائو فروخت کی جارہی ہے ۔ پورا مارکیٹ عجیب منظر پیش کررہاہے ۔ لوگوں کا بے انتہا رش ہے اور ہر دکان کی اپنی من پسند ریٹ ہے ۔ پوری وادی میں دکانداروں نے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ گاہکوں سے منہ مانگی دام طلب کی جارہی ہے ۔ سنڈے مارکٹ میں اتوار کو لوگوں کا بھاری رش دیکھا گیا اور مرد و زن یہاں بڑی تعداد میں امڈا ٓئے تھے ۔ اتنا شور تھا کہ کوئی بات سنائی دیتی تھی نہ سمجھ آرہی تھی ۔ یہاں ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں ۔ ہمارے لئے یہ عجیب بات ہے کہ ایسے ہر موقعے پر قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں ۔ پورا بازار دھوکہ دہی کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ گراں بازاری عروج پر ہے اور لوگوں کی جیبیں خالی ہورہی ہیں ۔ اگرچ اکثر نوجوان آن لائن خریداری کے عادی ہیں ۔ ایمیزان اور دوسرے آن لائن پورٹلوں سے شاپنگ کی جارہی ہے ۔ تاہم عید کی آمد سے پہلے بڑی تعداد میں لوگوں کو بازاروں میں خریداری کرتے دیکھا گیا ۔ جب آن لائن شاپنگ کی وجہ سے مقامی شاپنگ پر کافی اثر پڑا ہے تو دکانداروں کو یہ دیکھ کر گاہکوں کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کہ وہ ان کی دکانوں کا رخ کررہے ہیں ۔ لیکن یہاں جو سلوک دیکھنے کو مل رہاہے اس سے اندازہ ہورہاہے کہ دکاندار اس موقعے کو غنیمت جان کر پورے سال کی کمائی کرنے پر کمر بستہ ہیں ۔ اندازہ ہورہاہے کہ یہ دکانداروں کے لئے آخری موقعہ ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاکر جم کر لوٹ کھسوٹ کررہے ہیں ۔ قصائی ، مرغ فروش ، ملبوسات بیچنے والے اور بیکری والے سب یکجا ہوکر عام لوگوں کی جان و مال کے پیچھے پڑے ہیں ۔ لوگوں کو پہلے ہی مہنگائی کا سامنا ہے ۔ بازار جاتے ہوئے ہر شخص ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اب پورے سال کے لئے نہیں بلکہ ہر دن کے لئے بجٹ بنانا پڑتا ہے ۔ گھر سے جس طرح کی خریداری کا من بناکر آدمی بازارپہنچتا ہے وہاں سارا منصوبہ تہس نہس ہوکر رہ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آن لائن شاپنگ کو فقیت دی جارہی ہے ۔ وہاں مقررہ اور مناسب قیمتوں پر اشیا فروخت کی جارہی ہیں ۔ دھوکہ دہی کی صورت میں آڈر منسوخ اور خریدی گئی اشیا واپس بھی کی جاتی ہیں ۔ یہاں گاہکوں کی خواہش کا پورا احترام کیا جاتا ہے اور اشیا ہاتھ میں تھماکر قیمت وصول کی جاتی ہے ۔ اس کے بجائے ہمارے اپنے دکاندار کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور تھانیداروں کی طرح گاہکوں کو ڈرا دھمکاکر خاموش کرتے ہیں ۔ احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو قصائی گردن کاٹ دے گا ۔ بازار اب تجارت کا مرکز نہیں بلکہ لوٹ کھسوٹ کی جگہیں بن گئی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ اس صورتحال کا جائزہ لے کر اس پر قابو پانے کی کوشش کرے ۔
