تحریر: اِکز اقبال
پرسوں صبح ایک دل دہلا دینے والا حادثہ پیش آیا۔ ایک ایسا حادثہ جس نے ساری وادی میں سنسنی پھیلا دی۔ ہر طرف قیامت صغریٰ کا سماں تھا ۔ اس حادثے میں تا دمِ تحریر06 لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے ۔ جن میں ایک ہی گھر کے دو معصوم لال مدثر فیاض اور تنویر فیاض کے ساتھ انکی والدہ فردوسہ بھی شامل ہیں۔
یہ معصوم صبح سویرے اپنی خوشی میں مگن اسکول جانے کی خوشی میں تھے۔ مگر ان معصوموں کو کیا پتہ تھا ۔ کہ یہ نہ تو کبھی اسکول پہنچ پائیں گے اور نہ ہی کبھی گھر واپس آ پائیں گے ۔
اور پھر والدین کے لیے زندگی کا سب سے بھاری دِن وہ ہوتا ہے کہ بچے اسکول جائیں اور واپس گھر نہ آئے ۔
ان معصوموں کی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار آخر ہے کون ؟
مقامی باشندوں کا الزام ہے کہ وہ پچھلے دس سالوں سے متعلقہ حکام سے ایک پل کا مطالبہ کرتے آئے ہیں ۔ مگر اُنکی کبھی نا سنی گئی۔ اگر آج گند تھل بٹوارا میں یہ پُل تیار ہوکے بحال ہوا ہوتا تو شاید ایسا حادثہ پیش ہی نا آتا۔ اور شاید ہم ان معصوموں کو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جانے سے بچا پاتے۔ کاش اربابِ اقتدار پر قابض لوگ اپنی ذمہ داریوں کو ایمان داری سے نبھاتے اور جو بھی کام ذمہ ہوتا ہے۔ وقت پر سر انجام دیتے ۔ پھر ایسے حادثے شاید نہ ہوتے اور زندگی کی خوش حالیوں پر یوں اچانک ماتم نہ بچھ جاتا۔
واللہ میری آنکھیں اشک بار ہیں ‘ میں تذبذب میں ہوں کہ ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں ؟ وہ معصوم ادھ کھلے گلاب تو اللہ میاں کو پیارے ہوگئے۔ مگر کل قیامت کے دن اگر وہ ہمارے دامن کو پکڑ کر پوچھیں کہ بتاؤ اس سب کا ذمہ دار کون تھا۔ کیا ہمارے پاس واقعی ان سوالوں کا جواب ہوگا ؟؟
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ جو سانحہ آج پیش آیا ہے۔ آئندہ ایسے واقعات پھر سے نہ ہو۔ تو ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے اربابِ اقتدار اور حکام کا اولین فریضہ ہے کہ اپنے کاموں کو ایمان داری سے وقت پر انجام دے۔ تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنے نہ کرنا پڑے اور بٹوارا سرینگر جیسا درد ناک سانحہ پھر سے رونما نہ ہو۔ حکام کے لیے عوام کی سلامتی ‘ حفاظت اور خوش حالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا جائے کہ عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے صرف کھوکھلے نا ہوں بلکہ وقت پر پائے تکمیل تک پہنچائے جائیں۔
دوسری اہم بات یہ کہ اعلیٰ حکام عوام الناس کی سلامتی اور امن کے لیے ایسے قوانین اور پروٹوکول سختی سے نافذ کریں۔ جن سے لوگوں کے مال و جان کو حفاظت کی ضمانت مل جائے۔ جیسے آج کے سانحہ کے حوالے سے کشتی مالکان کو قوائد و ضوابط کی پاسداری کے لیے اس بات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ وہ کتنے لوگوں اور کتنے سامان کو ایک بار میں پار کرا سکتے ہیں ۔ کشتی مالکان کو وقت وقت پر تربیت دی جائے اور مشق کرائی جائے ۔ تاکہ آئندہ ایسے واقعات پھر سے رونما نہ ہونے پائے ۔
تیسری اہم بات عوام الناس سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے جان و مال کی حفاظت کے خود ہی ذمہ دار رہے۔ اور وقت وقت پر اربابِ اقتدار تک اپنی شکایت درج کرائیں اور ضروریات کے سارے کام وقت پر اور احسن طریقے سے کرائیں جائے۔ یہ بات سچ ہے کہ لوگ اپنی حالت کے خود ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ تو عوام کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حق کے لیے ہمیشہ کھڑے ہوں اور آواز اٹھائیں ۔ تاکہ آج جو ہم نے ان معصوموں کو کھو دیا ہے ایسا پھر سے نہ ہو۔
آج کا قیامت خیز سانحہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی اُنکی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔ تاکہ ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آئے ۔