تحریر:رشید پروینؔ سوپور
کانگریس جس کی قیادت میں ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی اور پھر جس نے برس ہا برس سارے ہندوستان پر راج کیا ، پچھلی ایک دہائی سے سیاسی طور پر یتیم بھی لگتی ہے اور بی جے پی کے ہتھکنڈ وں کے سامنے بونی اور بے بس بھی ہوچکی ہے ۔کانگریس جس سے گھوٹالوں کا منبع بھی کبھی کہا گیا لیکن بی جے پی نے گھوٹالوں میں بھی ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود ماڈرنائزیشن سے بڑی حد تک ان گھوٹالوں سے عوامی نظریں ہٹانے میں کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کئے لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی دو رائیں نہیں کہ کانگریس بھارت کی سب سے بڑی اور طاقتور پارٹی رہی ہے اور سارے بھارت پر محیط رہی ہے ، میرا موضوع در اصل کانگریس کا جموں و کشمیر میں رول سے تعلق رکھتا ہے اور اس بات کواُجاگر کرنا بھی ہے کہ جموںو کشمیر سے متعلق کانگریس کی سوچ اور پچھلے ۷۵ برسوں میںکیا اپروچ رہا ہے جس کی وجہ سے کشمیر میں خصوصی طور پر اور جموں کے مسلم ائریاز میں بھی کانگریس کی سیاسی چالبازیوں ، فریب اور خوبصورت پردوں میں جھوٹ اور مکر آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن منکشف ہوا توعوامی سطح پر کانگریس سے دوریاں پیدا ہو تی چلی گئیں۔جس کی وجہ سے وہ کبھی کشمیری عوام کے لئے قابل بھروسہ نہیں رہی ۔ جموں وکشمیر ۴۷ سے پہلے بھارت کی کوئی ریاست نہیں تھی بلکہ یہاں جموں کی ڈوگرہ شاہی قائم تھی اور انگریز نے اس سر زمین کوکلہم طور پر فروخت کیا تھا ’’ قومے فرو ختنند و چہ ارزاں فروختنند ‘‘ مہاراجہ۔ ہند کے ساتھ الحاق کے قائل نہیں تھے ان کا رحجان دونوں دیسوں یعنی ہند و پاک جو کہ ۱۴ اگست ۴۷ کو وجود میں آچکا تھا سے الگ ریاست کے طور جموں و کشمیر کو دنیا کے نقشے پر دیکھنے کی طرف تھا لیکن نہرو کی دوستی میں شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس کو دو پھاڑ کیا ، مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس کو وجود بخشا اور نہرو کے ساتھ ایک ایسی دوستی میں اپنے آپ کو باندھ دیا کہ تاریخی طور پر ان کی تگ و دو اور کشمکش اسی نقطے پر مرکوز رہی کہ کسی بھی طرح سے جموں وکشمیر کو پاکستان کی جھولی میں نہیں گرنے دینا ہے اور نہ کسی آزاد ریاست کی حثیت سے اس کی تشکیل کرنی ہے ۔ا س کے برعکس شیخ نہرو سے وعدہ بند ہوئے کہ جموں و کشمیر انہیں تحفے کے طور دے دیں گے ، اور ایسا ہی ہوا، شیخ پہلے وزیر اعظم جموں و کشمیر ہوئے لیکن اسی دوران چھوٹی سی مدت میں شیخ عبداللہ کو کانگریس کے دو غلے پن کا شدید احساس ہوا ، کیونکہ در پردہ نہرو الحاق ہند کے وجود میں آنے کی شروعات سے اس کی بیخ کنی کے اقدامات کرنے لگے ، ۵۳ ۱۹ میں شیخ کو عقوبت خانوں کی نذر کرکے بخشی غلام محمدکو پلانٹ کیا گیا اور پھر ایک کے بعد ایک وزرائے عظم اور وزرائے اعلیٰ دل کی ڈولی میں بیٹھ کر کشمیر وارد ہوتے رہے ، یہ سب سے بڑی وجہ رہی کہ کشمیری عوام نے جمہوری دلہن کی کبھی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی ، شیخ کانگریس سے اتنے متنفر ہوئے کہ ایک بار انہیں گندی نالے کے کیڑے کہہ کر اپنی قوم کو ان سے ترکِ موالات کے احکامات صادر کئے ،اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ کانگریس جموں و کشمیر میں کئی چہروں کے ساتھ موجود رہی ہے اور آج بھی اس پارٹی کا یہی حال ہے ۔ اس کی بہت بڑی اور ناقابل تردید مثال اس آنے والے الیکشن سے پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہے کہ یہ پارٹی آج بھی ان ہی خطوط پر اپنی حکمت عملیاں ترتیب دے رہی ہے ، سب سے پہلے ہم بات کریں گے لداخ کی ۔ جہاں کے عوام کچھ مطالبے کرتے رہے ہیں اور ان کے کئی لیڈر ان مطالبات کو منوانے کی خاطر بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں ، حال ہی میں پرینکا گاندھی نے ان مطالبات کے حق میں آواز اٹھائی لیکن ایسے کچھ مطالبات کشمیری لیڈروں کے بھی رہے ہیں جن میں ریاست اور ۳۷۰ کی بحالی بھی ہے لیکن کانگریس کے کسی شخص نے کشمیری عوامی مطالبے کے حق میں کبھی آواز نہیں اٹھائی ، ظاہر سی بات ہے دونوں کے مطالبات ایک سے ہیں لیکن جموں و کشمیر کو ان حقوق سے ۲۰۱۹ کو محروم کیا گیا تھا ، جب کہ لداخی لوگ ان حقوق کا اب مطالبہ کر رہے ہیں ، اب آنے والے انتخابات کی بات کریں تو عام انسان بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کانگریس کا اپروچ اور سوچ کس قدر پست تر ہوچکی ہے کہ اب انہیں صحیح اور غلط کی پہچان بھی نہیں رہی ہے، کانگریس نے اس بار جموں سے رمن کمار بلہ اور چودھری لال سنگھ کو منڈیڈیٹ دیا ہے ، لال سنگھ کا منڈیڈیت نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ کانگریس کے اسی دوغلے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جو ان کا اصل اور مکروہ چہرہ ہے ، رمن بلہ اور چودھری لال سنگھ ایک دوسرے کے قطعی متوازی ٰ ہیں ، ایک خیا لات اور اپنی سوچ کے لحاظ سے قطب شمالی دوسرا قطب جنوبی پر بیٹھا ہے ، رمن بلہ ریاستی انتخابات ، ریاستی درجے کی بحالی ،۳۷۰ کی بحالی اور زمینی ملکیتی حقوق اور مقامی آبادی کے لئے ملازمتوں کو وقف رکھنے کا موقف رکھتے ہیں ، اس کے بر عکس چودھری لال سنگھ ان سب کی ضد ہیں بلکہ کشمیر کو لے کر وہ خود شروع سے اضداد کا مجموعہ رہے ہیں بڑی دلچسپ شخصیت ہیں اس لحاظ سے کہ ان کے خیالات اور ان کا موقف بلکل آر ایس ایس سے ہم آہنگ ا ور مطابقت رکھتا ہے اس لئے ان کا تھوڑا سا پسِ منظر پیش کرنا لازمی ہوجاتا ہے تاکہ آپ ان کی شخصیت کا ایک اندازہ کر سکیں چودھری لال سنگھ جی ’’ڈوگرہ سوبھیمان سنگھاٹن کے بانی ہیں اور ان کی بیوی ’ان دوترا‘ سابقہ ایم ایل اے اس تنظیم کی صدر ہیں، اس تنظیم کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ ایک مخصوص فرقے کی تنظیم ہے اور اس تنظیم کے اہداف اور مقاصد یہی ہیں کہ ڈوگرہ عوام میں ان کے سو بھیمان اور ڈوگرہ ہونے پر ان کے غرور کو بڑھاوا دیا جائے اور صرف ان کے لئے تعمیر و ترقی کی راہیں ہموار کی جائیں ، ، یہ لال سنگھ ۲۰۱۴ تک کانگریس میں تھے اور منڈیڈیٹ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہوکر بی جے پی جوائن کی ، بی جے پی کی طرف سے مفتی سر کار میں مختلف وزارتوں پر فائض رہے۲۰ مارچ ۲۰۲۴کو انہوں نے پھر کانگریس جوائن کی ہے اور کانگریس نے انہیں اس بار پھر منڈیڈیٹ دے دیا ہے ،حیرت انگیز طور پر لال سنگھ کئی بار کشمیر کو انفیکشن سے تشبیہہ دے چکے ہیں اور ۔ جموں کے لئے ایک الگ ریاست کی مانگ کرتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ علاقی تعصب کو فروغ دیتے رہے ہیں اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جب وہ کشمیری عوام کے خلاف ہر زہ سرائی نہیں کرتے ، ان کی زندگی کی کتاب میں ایک نیاریکارڈ بھی اس وقت رقم ہوا ہے جب وہ دنیا کے پہلے اور شاید آخری لیڈر ہوں گے جس نے ریپ اور مرڈر کیس میں ملوث افراد کے حق میں ریلیاں منظم کیں ، لوگوں کو سڑکوں پر نکالا اور ریپسٹس اور قاتلوں کی باہر اور بر ملا اجتماعی طور پر وکالت کی ، آپ کو بدنام زمانہ رسانہ کٹھوعہ کیس یاد ہی ہوگا ، جس نے درندگی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے تھے اور جسمیں چند ذہنی مریضوں نے جو محظ مسلم کمیونٹی سے نفرت رکھتے تھے ،نے ایک معصوم آٹھ بچی کو اغوا کرکے ایک مندر میں کئی روز تک کئی افراد نے اس کا ریپ کیا اور پھر اس کے بعد اس سے پتھروں اور لاٹھیوں سے ہلاک کیا ، یہ اپنی نوعیت اور وحشیانہ پن کا منفرد اور ہیبتناک سانحہ تھا اور نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے کئی شہروں بشمول دلی کے اس کے قاتلوں کے خلاف بڑی بڑی ریلیاں نکالی گئیں اور قاتلوںکو پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ ہوا ، لیکن چودھری لال سنگھ ، ان اغو کاروں اور قاتلوں کو بچانے کے لئے جموں میں ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کرتے رہے ، اس لحاظ سے یہ دنیا کی اپنی نوعیت کی حیرت انگیز اور ہیبتناک ریلیاں تصور کی جاتی ہیں ،اس طرح کی ریلیاں ابھی تک اسرائیل کے اندر بھی نہیں ہوئیں ، لیکن یہاں ایک وقت میں مسٹر لال سنگھ ایسا بھی کر چکے ہیں اور یہ حیرت کی ہی بات ہے کہ اس سے کانگریس نے آتے ہی منڈیڈیٹ تفویض کیا جو ایک سانحہ سے کم نہیں اس لئے کہ ا س منڈیڈیٹ سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ کانگریس کا کشمیر کے لئے کس قسم کا اپروچ اور کس طرح کی سوچ موجود ہے ، جو خطر ناک اور بھیانک عزائم مسلم کیمونٹی کے بی جے پی کا بر ملا ایجنڈا ہے وہی جموں و کشمیر کا کانگریس کا بھی عملی طور پر رہا، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کانگریس پردہ نشین رہی ہے اور بی جے پی نے صاف صاف اپنے عزائم کا اعلان کیا ہے ، کیا یہاں ایک بہت بڑا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ دو امیدواروں کا اپروچ جب اس قدر متضاد ہے ، جب ایک ہی پارٹی کے دو رکن ایک دوسرے کی بلکل ضد ہوں اور جن کا کہیں بھی اور کسی معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا عندیہ نہیں ملتا وہ کس طرح سے اور جموں و کشمیر کے مسائل متحد اور بہ اتفاق آگے بڑھا سکتے ہیں ؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس اس تضاد کو لوک سبھامیں لے کر کیا کرنا چاہتی ہے؟ ، در اصل یہ سارا معاملہ ہی اسی دو غلے و طیرے اور انداز حکمرانی کی تر جمانی کرتا ہے جو کانگریس کاجموں و کشمیر اور خصو صاً وادی کے عوام کے تئیں رہا ہے اور یہ بہت ہی قابل افسوس طریق کار ہے ، کانگریس کی اس غیر منصفانہ حکمت عملی ہی کے نتیجے میں کشمیری عوام عمومی طور پر کانگریس سے بھی دور رہے ہیں اور ان دوغلی حکمت عملیوں نے انہیں مینسٹریم اور قومی دھاروں سے بھی جدا رکھا ہے ، آر ایس ایس اور بھاجپا جس سے کبھی جن سنگھ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا کشمیر ی عوام کے لئے یہ نام عملی طور پر ’گبر سنگھ ‘کے کردار سے مماثلت رکھتا تھا کیونکہ یہاں ایک زمانے میں اور دوردراز علاقوں میں اب بھی مائیں بچوں کو ڈرانے کے لئے ’’ بچے سوجا ، یا کھانا کھا ۔نہیں تو جن سنگھ آئے گا ‘‘کا جملہ دہراتی ہیں ،انہیں اس کا پسِ منظر معلوم ہوکہ نہیں لیکن جن سنگھ ایک خوف ۔ڈر اور ظلم کی علامت بنی ہوئی تھی اور آج وہی شراب نئی بوتل میں پیش کی جارہی ہے کیونکہ بنیادی طور پر اس شراب کے کیمیکل اور خصوصیات وہی پرانی ہیں لیکن بوتل بڑی خوبصورت اور نئی برانڈ کی ہے ، شاید فاروق عبداللہ کے حالیہ بیان جو انہوں نے اپنی پارٹی ہیڈ کوارٹر پر دیا ہے میں اسی احساس کی پر چھائیاں ابھر رہی ہیں جب انہوں نے کہا کہ کشمیری قوم کبھی آر ایس ایس اور بھاجپا کے دوستوں کو معاف نہیں کرے گی ۔ کیونکہ بھاجپا کشمیر کی شناخت ختم کرنا چاہتی ہے ۔وہ ہمیں مذہبی علاقائی ، فرقوں اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتی ہے اور یہ ہمیں قبول نہیں ، جموں و کشمیر کے عوام کو ہر رنگ میں محتاج بنا کر رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لئے اپنے آلہ کاروں سے کام لے رہی ہے ‘‘ ان الفاظ پر غور کیجئے اور چودھری لال سنگھ کے موقف اور ان سے متعلق ان کے اپروچ اور سوچ سے عبارت موقف کا بھی جائزہ لیجئے تو بلکل صاف منکشف ہوجاتا ہے کہ لال سنگھ کو منڈیڈیٹ دے کر کانگریس نے بھی کشمیر سے متعلق اسی موقف کی حمائت کی ہے ، جو سیکو لر پارٹیوں کا شیوہ نہیں ۔۔