از: فاروق بانڈے
پارلیمانی الیکشن کے تیسرے دور کے لئے وادی کے ایک حلقے ۔اننت ناگ۔ راجوری۔ میں اس ماہ کی 7 تاریخ کو ووٹنگ کے امکانات ہیں۔ جموں کشمیر میں پہلے دو مرحلوں میں ادھمپور اور جموں سیٹ کے لئے ووٹنگ ہوئی اور امیدواروں کی قسمت کافیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند ہو چکا ہے۔ ادھمپور میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوارمرکزی وزیر ڈاکٹر جتندر سنگھ کا براہ راست مقابلہ کانگریس کے لال سنگھ کے ساتھ ہے۔ اس حلقے سے غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی(ڈی پی اے پی) کا بھی ایک امیدوار سابق وزیر جی ایم سروری بھی الیکشن میں بطور امیدوار ہیں مگر عوامی رحجان سے یہی لگتا ہے اصل مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے2014 میں کانگریس امیدوار غلام نبی آزاد کو 60976 ووٹوں سے ہرا کر پہلی دفعہ پارلیمنٹ میں اپنی جگہ نبائی۔2019 کے الیکشن میں ڈاکٹر سنگھ نے کانگریس کے وکرما دیتیا سنگھ کو 357252 ووٹوں کے بڑے فرق سے ہرا کر دوسری بار اس سیٹ پر قبضہ کیا تھا۔ اس الیکشن کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر سنگھ نے ڈالے گئے ووٹوں میں سے 724 311 ووٹ حاصل کئے جو کہ 61.38 فیصد بنتا ہے۔ ووٹوں کی اتنی بڑی فیصدبہت ہی کم امیدواروں کو حاصل ہوتی ہے۔ جموں پارلیمانی حلقے سے بی جے پی کے جگل کشور بھی تیسری بار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ کانگریس کے رمن بھلا سے ہو رہاہے۔2019 کے الیکشن میں جگل کشور نے رمن بھلا کو 302875 ووٹوں سے ہرایا تھا۔ کشور نے مجموعی طور پر58.02 فیصد جبکہ رمن بھلا صرف37.54 فیصد ووٹ ہی حاصل کر سکے تھے۔وہاں پر خاص بات یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس نے نہ 2014 اور نہ ہی 2019 میں ان دو حلقوں سے اپنے کسی امیدوار کو میدان میں اُتا را تھا جبکہ پی ڈی پی نے 2014 میں ادھمپور اور جموں دونوں سیٹوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے جو تیسرے مقام پر رہے تھے۔اس سیٹ کے امیدواروں کا فیصلہ بھی مشینوں میں بند ہو چکا ہے اور اب چار جون کو ہی پتہ چلے گا کہ کون بازی مارے گا۔
پارلیمانی انتخاب کے اعلان سے قبل یہ باور کیا جاتا تھا کہ این سی اور پی ڈی پی جو کہ گپکار الائنس کے ساتھ ساتھ قومی سطح کے انڈیا الائنس کے بھی حصے ہیں، مشترکہ طور پارلیمانی الیکشن لڑیں گے اور وادی کی تین سیٹوں میں سے کم از کم ایک سیٹ، اننت ناگ سیٹ، پی ڈی پی کو دی جائے گی۔ مگر این سی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق اور اس کے صاحبزادے و پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے یہ سیٹ پی ڈی پی کے لئے مختص کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں ان ہی کی پارٹی نے تینوں سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے اور پی ڈی پی اس حلقے میں تیسرے مقام پر رہی ہے۔ این سی نے اس حلقے سے اپنے ایک دیرینہ گوجر لیڈر میاں الطاف کو امیدوار بنایا ہے۔
گپکار الا ئنس کی دو بڑی جماعتوں، این سی اور پی ڈی پی میں پارلیمانی سیٹوں پر کوئی مفاہمت نہ ہونے کی وجہ سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنی سربراہ محبوبہ مفتی کو اننت ناگ حلقے سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔محبوبہ مفتی بھی سابق ریاست کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں اور کئی بار اسمبلی ممبر کے علاوہ پارلیمنٹ کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔ 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں مفتی کوحلقے کے لوگوں نے مسترد کر کے اسے پہلی پوزیشن سے تیسری پوزیشن پر پہنچا دیا اوروہاں سے این سی کے امیدوار حسنین مسعودی کامیاب ہوئے جبکہ کانگریس کے غلام احمد میر ان کے نزدیکی مدِ مقابل رہے۔ سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی کی طرف سے ظفر اقبال منہاس الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مرکز میں حکمران جماعت نے وادی کی تینوں سیٹوں پر براہِ راست الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ ان سیٹوں پر اپنی ہم خیال پارٹیوں کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ جموں میں اپنی الیکشن مہم کے دوران بی جے پی کے سینئر لیڈر امیت شاہ جو کہ مرکزی وزیر داخلہ بھی ہیں، نے وادی سے اپنے کسی امیدوار کو میدان میں نہ اُتارنے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم انہوں نے وادی کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ کسی بھی امیدوار کو اپنا ووٹ دیں مگر کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے امیدوار کو نہیں۔ اننت ناگ۔ راجوری سیٹ پر پوزیشن یہ ہے کہ یہاں سے کانگریس انڈیا الائنس کے ساتھی نیشنل کانفرنس کی حمایت کر رہی ہے اور پی ڈی پی کو نہیں اگرچہ کہ وہ بھی انڈیا الائنس کی ممبر ہے۔ بی جے پی کے پاس اب دوہی ’ہم خیال‘ پارٹیوں کے امیدوار رہ جاتے ہیں، غلام نبی آزاد کی پی ڈی اے پی اور اپنی پارٹی کے امیدوار۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اگرچہ کہ اپنے پتے نہیں کھولے ہیں تاہم سبھی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدوار کو ہی اپنی حمایت دیکر سرخرو کرانے کی کوشش کرے گی۔باجپا بظاہر سین سے ہٹ چکی ہے تاہم اس سیٹ پر اپنی پوزیشن کا مشاہدہ کرنے کے لئے بے تاب نظر آ رہی ہے۔
اس حلقے میں گوجر اور پہاڑی کمینٹی کی ایک اچھی خاصی تعداد رہتی ہے۔ حد بندی کمیشن نے سابقہ جموں پونچھ اور اننت ناگ لوک سبھا حلقوں کی حدود کو دوبارہ ترتیب دے کر یہ نیا پارلیمانی حلقہ قائم کیا۔ پورے پونچھ ضلع اور راجوری ضلع کے تقریباً دو تہائی علاقے جو جموں -پونچھ لوک سبھا سیٹ کا حصہ تھے، کو راجوری-اننت ناگ لوک سبھا سیٹ بنانے کے لیے جنوبی کشمیر کے ساتھ ملا دیا گیا اور اس طرح جموں اور کشمیر کے دونوں ڈویژنوں کو دو حصوں میں اور نصف پارلیمانی نشستیں ہر ایک صوبہ میں تقسیم کرنے کے قابل بنایا گیا۔یہ نیا پارلیمانی حلقہ 18 اسمبلی حلقوں میں پھیلا ہوا ہے، جس میں اننت ناگ، اننت ناگ ویسٹ، بدھل، دیوسر، ڈی ایچ پورہ، ڈورو، کوکرناگ، کولگام، مینڈھر، نوشہرہ، پہلگام، پونچھ حویلی، راجوری، شانگس-اننت ناگ ایسٹ، سری گفوارہ-بجبیہارا، سورنکوٹ، تھانہ منڈی اور زینہ پورہ شامل ہیں۔۔ اس پارلیمانی حلقے میں کل تقریباً 18.29 لاکھ ووٹر ہیں۔ جبکہ تقریباً 50 فیصد رائے دہندگان کشمیری مسلمان ہیں، باقی 28.5 فیصد پہاڑی اور 21.5 فیصد گجر ہندو ، کشمیری پنڈت اور تقریباً 15 ہزار سکھ شامل ہیں۔ چونکہ اس پارلیمانی سیٹ میں پڑنے والے زیادہ تر اسمبلی حلقے نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے گڑھ رہے ہیں، اس کے بعد کانگریس پارٹی ہے، زعفرانی پارٹی
پہاڑیوں کی زبردست حمایت پر سوار ہو کر اس لوک سبھا سیٹ پراین سی کا قبضہ اپنی حلیف پارٹیوں کے ذریعے ختم کرناچاہتی ہے ۔
گجر، بکروال اور پہاڑی ووٹوں کی اکثریت راجوری-پونچھ بیلٹ سے ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور پہاڑی ہندوؤں کا ایک چھوٹا سا طبقہ بھی یہاں موجود ہے۔ اس حلقے میں اب راجوری اور پونچھ کے سات اسمبلی حلقے ہیں، جن میں 7.35 لاکھ ووٹرز ہیں، اور شوپیاں، کولگام، پلوامہ اور اننت ناگ کے 11 اسمبلی حلقوں میں 10.94 لاکھ ووٹرز ہیں۔ مرکزی سرکارکی طرف سے پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے اقدام کے بعد ایک اشارے کے طور پر زعفرانی پارٹی کی کھلی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر این سی، اپنی پارٹی اور پی ڈی پی کے درمیان تکونی مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔ اگرچہ کہ اس سیٹ پر این سی کی پوزیشن بہتر لگتی ہے تاہم پی ڈی پی سربراہ کے انتخابی اکھاڑے میں آنے کے بعد ان (این سی)کے لئے یہ اتنی آسان بھی نہیں رہی ہے۔ مفتی کے لیے اننت ناگ مفتیوں اور پارٹی کا آبائی شہر ہے، کیونکہ ان کے زیادہ تر رہنما جنوبی کشمیر سے آتے ہیں۔ دوسری طرف، این سی، پی ڈی پی سے جنوبی کشمیر کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مناسب وقت دیکھتی ہے، جس نے 2019 کے بعد لیڈروں کا اخراج دیکھا۔ یہاں مفتی کی شبیہ اور سیاسی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے این سی کے انتخابی امکانات بھی اس سیٹ پر منحصر ہیں۔
مفتی بھی 2018 میں ایک گجر لڑکی کی عصمت دری اور قتل پر ان کے موقف اور 2019 کے بعد جنگل کی زمین سے گجروں اور بکروالوں کی بے دخلی کے خلاف ان کے سڑکوں پر احتجاج کے لیے پیدا ہونے والی خیر سگالی پر قبائلیوں اور بینکوں تک پہنچ رہی ہیں۔ اپنی پارٹی کے امیدوار ظفر اقبال منہاس ایک مشہور پہاڑی کارکن ہیں، جنہوں نے پہاڑیوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے کئی دہایوں سے مسلسل جدوجہد کی ہے اور جموں کشمیر کے اس طبقے میں اچھا خاصہ اثر بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی پارٹی اننت ناگ
حلقے کی کئی اسمبلی سیٹوں پر اچھا خاصہ اثر بھی رکھتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مقابلے کی صورت میں کیا ان کے مقامی لیڈر ووٹروں کو پارٹی کے حق میں ووٹ دلانے میں کامیاب رہتے ہیں یا نہیں؟۔اپنی پارٹی کے امیدوار منہاس اپنی تعداد بڑھانے کے لیے بی جے پی اور جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس جیسے اتحادیوں کی حمایت حاصل کر رہے ہیں۔ اس حلقے میں محمد یوسف تاریگامی اور ان کی پارٹی سی پی آئی (ایم) کا بھی کئی اسمبلی حلقوں میں اثر ہے، گپکار الائنس جس کے تاریگامی بھی ایک لیڈر ہیں۔ انہوں نے این سی امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اننت ناگ۔ راجوری حلقے میں صرف وہی امیدوار کامیاب ہوسکتا ہے جو آر پار کے اسمبلی حلقوں میں اپنی شبیہ کو مستقم بنا کر ان کا ووٹ اور سپورٹ حاصل کر سکے۔