وادی کے اطراف و اکناف میں سنیچر سے بارشوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے کاروبار زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ۔ اس حوالے سے پہلے ہی کہاگیا تھا کہ سیلاب کا کوئی امکان تو نہیں البتہ سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا ۔ دریائوں اور ندی نالوں کے آس پاس رہنے والوں کو احتیاط سے کام لینے کی ہدایت دی گئی ۔ بلکہ کئی علاقوں میں پر خطر جگہوں پر رہنے والوں کو ان جگہوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ۔ اس سے کسی حد تک جانی تحفظ تو فراہم ہوا ۔ تاہم لوگوں کو مسلسل بارشوں سے سخت مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا رہا ۔ اس دوران کئی علاقوں میں زمین دھنسنے کے واقعات پیش آئے ۔ ان علاقوں میں دلدلی زمین کے علاوہ پختہ سڑکیں اور بجلی کے لئے بنیادی ڈھانچے تباہ ہوگئے ۔ یہاں تک کہ وادی کو بجلی کا سب سے مضبوط ترسیلی نظام بھی خطرے کی زد میں آگیا ۔ بونیار اوڑی سے اطلاع ہے کہ ایک مکان ڈھ جانے سے ایک ہی کنبے کے نصف درجن افراد زخمی ہوگئے ۔ کپوارہ کے بالائی علاقوں میں کئی درجن کنبوں کو اپنے رہائشی گائوں سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا ۔ ترال سے بھی اسی طرح کی اطلاع سامنے آئی ہے ۔ کولگام میں ویشو اور دوسرے نالوں میں پانی کا بہائو بڑھ جانے سے سخت خوف و ہراس پیدا ہوگیا ۔ یہاں بھی بالائی علاقوں میں رہنے والے کنبوں کو تحفظ فراہم کرنا پڑا ۔ ڈویژنل کمشنر نے ایک دن کے لئے وادی کے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا آڈر جاری کیا ۔ سوموار شام کو موسم نے کڑا رخ اختیار کیا اور کئی گھنٹوں تک موسلا دھار بارشیں ہوتی رہیں ۔ اس وجہ سے عوامی اور سرکاری حلقوں میں سخت تشویش پیدا ہوگئی ۔ سرینگر جموں شاہراہ پر کئی مقامات پر پسیاں گرآنے کی وجہ سے ٹریفک کی نقل و حمل کئی گھنٹوں تک معطل رہی ۔ بالائی علاقوں کے ساتھ ساتھ سادھنا ٹاپ ، گریز کو جانے والی سڑک اور مغل روڈ کے علاوہ کئی سڑکیں برف آنے کی وجہ سے بند ہوگئی ۔ اس سے مسافروں کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ادھر کئی علاقوں میں گھروں کے اندر پانی جمع ہونے اور ندی نالوں میں پانی کا بہائو بڑھ جانے سے لوگوں کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ۔اسی طرح کسانوں اور باغ مالکان کو بارشوں سے نقصان پہنچنے کا خدشہ رہا اور انہیں اس حوالے سے سخت مایوسی ہوئی ۔ پوری وادی میں اس دوران کھیتوں اور باغوں میں سرگرمیاں مکمل طور معطل رہیں ۔ متعلقہ سرکاری محکموں نے کسانوں کو مشورہ دیا کہ کھیتوں میں کوئی بھی کام کرنے سے گریز کریں ۔ محکمہ فلڈ کنٹرول کے چیف انجینئر نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ محکمہ کے تمام ملازموں کو الرٹ کیا گیا ہے اور ملازم صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ آبی ٹرنسپورٹ کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے اور ندی نالوں کے کناروں سے ہر صورت میں دور رہا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پھسلن کی وجہ سے کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے ۔ بلکہ جانی نقصان ہونے کا خطرہ بھی ہے ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر آبی ذخائر اور ندی نالوں سے دور رہنا لازمی ہے ۔ محکمہ موسمیات کی طرف سے بھی لوگوں کو وارننگ دی گئی کہ خود کو خطرے میں نہ ڈالیں اور بادل پھٹنے اور پسیاں گر آنے سے خود کو بچائے رکھیں ۔ لوگوں نے ان ہدایات پر عمل کرکے انتظامیہ سے تعاون کیا ۔ منگلوار کو موسم میں بہتری آنے کے بعد لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے کے علاوہ بے وقت کی بارشوں ، برف باری اور ژالہ باری کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔ اس وجہ سے موسموں کے روایتی نظام میں بھی بہت حد تک تغیر و تبدل ہورہاہے ، سرما میں جب عام طور پر بارشیں ہوتی تھیں اب خشک سالی کا سامنا رہتا ہے ۔ اسی طرح گرما میں حد سے زیادہ گرمی کے علاوہ بے حد بارشوں اور بادل کے پھٹنے کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ عام لوگ اس صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس پر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن جانکار حلقے اسے قدرتی توازن میں انسان کی بے جا مداخلت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر تشویش پایا جاتا ہے ۔ کئی این جی اوز ترقی یافتی ملکوں پر زور دے رہے ہیں کہ ایسی سرگرمیوں پر روک لگادی جائے یا کم ان میں ممکنہ حد تک کمی لائی جائے جن کی وجہ سے کاربن گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہورہاہے ۔ لیکن ایسے کرنے میں بہت زیادہ کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔ اس طرح کے موسمیاتی عدم توازن کا سامنا سارے عالم کو کرنا پڑرہاہے ۔ جموں کشمیر میں بھی اس وجہ سے موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ سرکار پچھلی ایک دہائی سے شجر کاری پر زور دے رہی ہے ۔ بلکہ لوگوں کو پودے فراہم کرکے خالی جگہوں پر شضر کاری کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ۔ اس کا حوصلہ افزا نتیجہ سامنے آرہاہے ۔ لیکن دوسری طرف جنگلات کا حجم تیزی سے کم ہورہاہے ۔ ایسے درخت جو آکسیجن فراہم کرنے میں اہم رول ادا کررہے تھے آہستہ آہستہ ناپید ہورہے ہیں ۔ سڑکوں کے پھیلائو کی وجہ سے کئی درجن چنار کاٹنے پڑے ۔ اسی طرح کی دوسری سرگرمیوں سے بھی ماحول پر برے اثرات پڑے ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر بے تحاشہ بارشوں اور دوسرے منفی اثرات کا سامنے آنا یقینی ہے ۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہئے ۔