از:غلام حسن سوپور
میں کہوں تو کہوں کیا , میں ایک غریب تاجر ہوں , تجارت نے پلٹی ماری چاروں اطراف دھماکوں کی گرج نے دماغی کیفت کا برا حال کردیا میں نے سوچا بچی سائینس میں اچھے نمبررات لیکر پاس ہوئی , مشورہ ہوا کیوں نہ بچی کو ڈاکٹر بنادیا جائے مگر ڈونیشن (Donation) کی رقم گھر میں موجود نہیں تھی میں اسی پریشانی میں تھا کہ ایک عزیز سے ملاقات ہوئی , میں نے انہیں اپنی پریشانی بتائی , عزیز نے مشورہ دیا کہ آپ فلاں رہنما۶ سے ملیں جس کا اپروچ (Aproch) ایک مسلم برادر ملک میں بے حد ہے وہ آپ کی بچی کا ایڈمیشن وہاں کرایا گا ۔ یہاں کے میڈیکل کالج میں میڈیکل سیٹوں کا اپنا کوٹا انہیں حاصل ہے جو وہاں کی سرکار نے انہیں یہاں کے مسلم رہنما ہونے کے اعزاز میں دے رکھا ہے “۔ میں مذکورہ رہنما کے گھر گیا , رہنما سفید بدیشی لباس , قیمتی بدیشی قراقلی , چمکیدار ریش مبارک سے سرفراز تخت نشین تھا , میں نے عرض کیا حضور میں دور سے آیا ہوں اور آپ مجھے جانتے بھی ہیں , میں تحریک نواز ایک تاجر ہوں وقت نے ساتھ نہ دیکر پلٹی ماری , حالات نے مجھے آسمان سے گراکر زمین پر کھڑا کیا , میری بچی بہت قابل ذہین ہے آس نے امتیازی پوزیشن سے بارویں کا ایکزام (Exam) پاس کیا میں اسے ہم ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں , آپ بدیش کے فلاں مسلم برادر ملک میں میڈیکل ایڈمیشن کرانے میں ہماری مدد کریں , کافی سوچ بچار کے بعد مذکورہ رہنما نے اشارہ کیا آپ دربار میں حاضر فلاں شخص سے مشورہ کریں خیر درباری سے مشورہ ہوا مشورہ میں درباری نے ساٹھ لاکھ روپیہ(=/60,00,000) کا تقاضہ (Donation) کیا پھر نظر عنائت ہوئی کہا اب آپ تیس لاکھ روپیہ (=/30,00,000) ادا کریں , جو میں ادا نہ سکا اور نراش ہوکر گھر لوٹ آیا۔ مسجد گیا ٹوٹے دل سے نماز ادا ہوئی اللہ سے دعا کی میرے رب کایا پلیٹ دے , کچھ مدت ہوئی مودی جی سرکار میں آگئے واللہ میں نے دیکھا کایا پلیٹ گئی اور سب رہنما جیل گئے حوالہ کا حساب لگا , ?سرکاری آشیرواد ختم ہوا رہنما رہزن ثابت ہوئے ٹھاٹھ باٹھ ختم ہوئی حکم نوابی ختم باجگزاری ختم , جھوٹی شہنشاہی ختم , تماشا پہ تماشا ختم اور میں حیران ہوا یارب تیرے یہاں دیر ہے مگر اندھیر قطعی نہیں , مگر اندھیر قطعی نہیں ! میں دیکھتا رہا اور دیکھتا رہا , عجب تیری قدرت عجب تیری شان ۔
کیا تو نے انصاف سے روشن جہاں”( واقع سچائی پر مبنی ہے )