لوک سبھا انتخابات کے لئے ملک کے بہت سے حلقوں کے ساتھ جموں میں بھی ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔ بھاجپا کے لئے جموں کی انتخابی نشست بڑی اہم ہے ۔ پارٹی کی طرف سے یہاں بڑے پیمانے پر الیکشن مہم چلائی گئی ۔ اس نشست کے لئے بھاجپا امیدوار سمیت کل 22 افراد میدان میں ہیں جن کی تقدیر کا فیصلہ یہاں کے ووٹر کررہے ہیں ۔ انتخابی نشست کے لئے 17 لاکھ سے زائد ووٹر درج کئے ہوئے ہیں جو اپنی رائے کا استعمال کررہے ہیں ۔ 3 لاکھ سے زائد نوجوان ووٹر پہلی بار ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کراچکے ہیں ۔ یہ نوجوان پہلی بار الیکشن میں اپنے رائے کا اظہار کررہے ہیں ۔ ماضی میں اس نشست سے کانگریسی امیدوار سات مرتبہ کامیاب ہوچکے ہیں ۔ ان دنوں کانگریس کا ستارہ عروج پر تھا اور کوئی بھی امیدوار اس پارٹی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی جرات نہیں کرتا تھا ۔ بعد میں جب کانگریس کو زوال آگیا تو دوسرے امیدوار اپنی کامیابی درج کرسکے ۔ چار بار جموں کی اس نشست پر بھاجپا امیدوار کامیاب ہوگئے ۔ ایک بار نیشنل کانفرنس کا امیدوار الیکشن جیت گیا جبکہ ایک بار آزاد امیدوار میدان مارنے میں کامیاب ہوا ۔ ادھر کشمیر میں بھی الیکشن کے حوالے سے سرگرمیاں جاری ہیں ۔ پلوامہ راجوری نشست کے لئے امیدوار بڑے پیمانے پر الیکشن مہم چلارہے ہیں ۔ سرینگر میں کئی امیدواروں نے نامزدگی کا فارم بھرنے کے موقعے پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ۔ اس دوران الیکشن آفس کے علاوہ لالچوک اور کئی سڑکوں پر جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ 1987 کے بعد پہلی بار اس طرح کی انتخابی سرگرمیوں کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ سیاسی جماعتیں الیکشن مہم کو زور و شور سے چلارہے ہیں ۔ اس دوران مذہبی اور مسلکی حلقوں کے درمیان بڑے پیمانے کی جنگ جاری ہے ۔ زبانی جنگ نے معنی خیز صورتحال اختیار کی ہے ۔
جموں اور دوسرے علاقوں میں سیاسی کارکن اپنے طور میدان کو گرم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ایک ایسے موقعے پر جبکہ اپنے لئے بہتر امیدوار کی تلاش جاری ہونی چاہئے ۔ اسلامی اسکالر الیکشن کی اہمیت اور مستقبل قریب میں بننے والے سیاسی منظر نامے کے لئے فکر مند ہونے چاہئے ۔ انہیں اپنی مسند اور مسلکی نقطہ نظر مضبوط کرنے کی فکر ہے ۔ سیاسی حلقوں کی طرح مسلکی حلقوں کے مابین سخت کش مکش پائی جاتی ہے ۔ مسجد کے محرابوں پر ایسی دنگل دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے لوگ لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب اور مسلک ان کی وجہ سے زندہ ہے ۔ اللہ کے یہ بندے اس فکر میں ہیں کہ مسلک کی بنیادوں پر لڑی جانے والی جنگ مدہم نہ پڑجائے ۔ الیکشن ان کی نظروں میں سرے سے حرام ہے ۔ کانگریس کے یہ پروردہ آج یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ہیں کہ انہیں الیکشن میں کس کا ساتھ دینا چاہئے ۔ کانگریس کے حق میں ووٹ دینے پر یہ متفق ہیں کہ دینی تقاضا یہی ہے ۔ ماضی میں ان کے ساری دلچسپی اور حمایت کانگریس کے لئے وقف رہتی تھی ۔ کانگریس کے جھنڈے تلے ان کے مفادات محفوظ تھے ۔ اس وجہ سے کانگریس کی حمایت کرنا دینی فریضہ سمجھا جاتا تھا ۔ بلکہ اس کے لئے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جاتی تھی ۔ کانگریس سے الگ ہوکر سیاست ان کے لئے ہر گز جائز نہ تھا ۔ جہاں کانگریس قائم تھا یا جن علاقوں میں کانگریس کا وجود نہ تھا وہاں الیکشن لڑنا یا سیاست سے جڑنا ایک ناجائز اور حرام عمل تھا ۔ پھر جب کانگریس کا دائرہ سمٹ گیا اور اقتدار اس پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا تو الیکشن سے ان کی دلچسپی کم ہوگئی ۔ آج ساری توجہ اور دین کے نام پر جدو جہد مسلک کی حفاظت کے لئے مخصوص ہوکر رہ گئی ہے ۔ یہی دین کی خدمت اور یہی سب سے بڑا جہاد ہے ۔ ملک میں لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک کی حفاظت بی جے پی کے بغیر ممکن نہیں ۔ بی جے پی کے مخالف ملک کی سالمیت کے لئے انڈیا اتحاد کی کامیابی ضروری سمجھتے ہیں ۔ نچلی ذاتوں کے لوگ اپنے مفادات اور زیادہ سے زیادہ ریزرویشن حاصل کرنے کے لئے سیاسی کردار ادا کررہے ہیں ۔ غریب اور پسماندہ طبقے الیکشن کی وساطت سے اپنے مفادات کی تلاش میں ہیں ۔ ملک کا ہر طبقہ اور ہر گروہ الیکشن کے ان ایام میں اپنے مفادات کی فکر میں لگا ہوا ہے ۔ مسلم علما تقسیم اور باہمی تنائو کے لئے میدان گرم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ مسلکی دنگل کے بیچ اسلام کا کہیں ذکر ہے نہ اس کی بقا کا کوئی مسئلہ درپیش ہے ۔ یہاں اپنا ذاتی حلقہ بنانے اور مسلکی حلقہ بڑھانے کی فکر سب سے بڑھ کر ہے ۔ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلکی جنگ سرد نہ پڑجائے اور مسلمان مسلکی تنائو کو چھوڑ کر اسلام کی فکر نہ کرنے لگیں ۔ مسلمانوں کو اسلام سے دور اور مسلک سے نزدیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہی وقت کی ضرورت مانی جاتی ہے ۔ اس بات کو اہم سمجھا جارہاہے کہ ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش نہ آئیں ۔ مسلک ہی اصل دین بنائے گئے ہیں ۔ کہیں شرک کے نام پر فتویٰ بازی جاری ہے ۔ کہیں نعت خوانی کا طریقہ اور احترام سکھایاجاتا ہے ۔ اللہ کو ان ہی چیزوں سے خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ الیکشن کے ساتھ ان کا دور کا واسطہ نہیں ۔ بس مسلک کے نام پر جنگ ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ اسی بنیاد پر جنت اور جہنم کا تعین ہورہاہے ۔