مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ جموں کشمیر کے عوام رواں لوک سبھا انتخابات کے دوران خاندانی جماعتوں کو رد کریں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ این سی ، پی ڈی پی اور کانگریس کو ووٹ دینے کے بجائے اپنے لئے نیا متبادل تلاش کریں گے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس نے اپنے اقتدار کے زمانے میں دفعہ 370 کی حفاظت کی اور اس کو ہٹانے کی جرات نہیں کی ۔ اس پر بی جے پی سرکار کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی کی سربراہی میں قائم حکومت نے کشمیر کو مکمل طور ملک میں ضم کردیا ۔ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو چین کے سامنے جھکنے کا مجرم قرار دیتے شاہ نے کہا کہ انہوں ہندوستان کی زمین کا ایک حصہ چین کے حوالے کیا ۔ اس کے بجائے مودی کے دور میں کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ ایک انچ زمین ہڑپ کرلے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے دس سالوں کے دوران جتنے بھی وعدے سرکار نے عوام سے کئے انہیں پورا کیا گیا ۔ اسے مودی کی گارنٹی قرار دیتے ہوئے وزیرداخلہ نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس پارٹی کے لیڈروں نے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہ کرکے اپنا ووٹ بینک بچانے کی کوشش کی ۔ شاہ کا کہنا تھا کہ ملک کے عوام کانگریس کو کبھی معاف نہیں کریں گے اور اس کو کسی صورت میں ووت نہیں دیں گے ۔ وزیرداخلہ نے کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آر پار کے پورے علاقے کو ہندوستان کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ وقت آنے پر اس حوالے سے کاروائی عمل میں لائی جائے گی ۔
وزیرداخلہ انڈیا ٹوڈے کے ساتھ ایک انٹرویو دے رہے تھے کہ اس دوران انہیں کشمیر سے متعلق موقف بیان کرنے کا سوال کیا گیا ۔ کئی لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ بی جے پی نے کشمیر وادی کی تین اہم سیٹوں پر الیکشن نہ لڑنے اک اچانک فیصلہ کیا ۔ اس سے پہلے پارٹی یہاں کی تمام سیٹوں پر الیکشن لڑنے اور جیت جانے کا دعویٰ کررہی تھی ۔ الیکشن مہم شروع ہوتے ہی وادی کی تین سیٹوں کو اپنے ہم خیال امیدواروں کے لئے خالی چھوڑنے کا اعلان کیا گیا ۔ کشمیر میں الیکشن لڑنے والی کونسی جماعتیں اس کی ہم خیال ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ۔ الیکشن سے پہلے کئی جماعتوں پر الزام لگایا جارہا تھا کہ یہ جماعتیں بی جے پی کی بی ٹیم ہیں ۔ لیکن ایسا الزام سامنے آتے ہی ہر جماعت اس بات سے انکار کرتی رہی کہ اس کا بی جے پی کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ ہے ۔ بی جے پی نے بھی کبھی کھل کر نہیں کہا کہ اس کی ہم نوا کون سی جماعت ہے ۔ تاہم بی جے پی کے لیڈر پچھلے دس سالوں خاص کر 2019 میں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد کانگریس کے علاوہ این سی اور پی ڈی پی کے خلاف زہر اگلتے رہے ۔ خیال تھا کہ الیکشن میں بی جے پی ان جماعتوں کے خلاف بھر پور الیکشن مہم چلائے گی اور اپنے امیدواروں کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی ۔ بی جے پی سرکار نے اس دوران یہاں مبینہ طور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ۔ سیاسی سرگرمیوں کے ماورا سیاحت اور کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کی سخت کوششیں کی گئیں ۔ وزیراعظم نے خاص طور سے کشمیر کے ساتھ سخت دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے آئے دن اس حوالے سے بیانات دینے شروع کئے ۔ خیال تھا کہ الیکشن آتے ہی بی جے پی اپنے امیدواروں کو میدان میں اتار کر ان کے حق میں زور دار مہم چلائے گی ۔ تمام لوگوں کی نظریں اس بات پر لگی ہوئی تھیں کہ بی جے پی کشمیر کی تین نشستوں پر کتنا ووٹ شیئر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ پارٹی کا کشمیر یونٹ پچھلے کئی سالوں سے برابرکہتے آئے کہ وہ کسی بھی وقت الیکشن میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں ۔ تاہم یہ دیکھ کر سب حیران ہوکر رہ گئے کہ عین موقع پر بی جے پی نے کشمیر وادی کی کسی بھی نشست سے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا اور یہاں کی تینوں حلقوںکو اپنے ہم خیال امیدواروں کی جھولی میں ڈال دیا گیا ۔ اپنے جموں دورے کے موقعے پر وزیرداخلہ نے کہا کہ بی جے پی کو اس بات کی کوئی جلدی نہیں کہ کشمیر میں کمل کا پھول کھل اٹھے ۔ ان کا صاف اشارہ پارٹی کے الیکشن سمبل کی طرف تھا اور واضح کیا کہ
پارٹی یہاں اپنا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتار رہی ہے ۔ اس وجہ سے کشمیر میں انتخابی منظر نامہ پوری طرح سے بدل گیا ۔ اس دوران غلام نبی آزاد نے بھی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ۔ ادھر اپنی پارٹی نے شمالی کشمیر میں اپنے امیدورا کے بجائے پی سی کے رہنما سجاد لون کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ۔ الیکشن کے شروع میں جس طرح کا سیاسی میدان سجنے کا اندازہ تھا آج بازار بدلا ہوا منظر پیش کررہا ہے ۔ یہ پہلے سے مختلف منظر ضرور ہے تاہم دلچسپی سے خالی نہیں ۔ بلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ دلچسپ بن رہاہے ۔ سارا کا سارا میدان مقامی جماعتوں کے حوالے ہے ۔ وہ چاہیں تو اس کو یہاں کے عوام کے لئے فائدہ مند بنا سکتے ہیں ۔