تحریر:فاروق بانڈے
کسی بھی مہذب سماج میں بے گناہوں کے خون بہا کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے اور کوئی بھی ذی حس شخص اس بر بریت کی حمائت نہیں کر سکتا ہے۔حالیہ ایام میں کشمیر میں شہری ہلاکتوں کا ایک نیا ہی سلسلہ شروع ہوا ہے ، جس وجہ سے نہ صرف وادی بلکہ جموں سمیت ملک میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔حالیہ دنوں میں اٹھارہ لوگوں کو براہ راست نشانہ بنا کر وادی میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کچھ لوگ ان ہلاکتوں کو وادی میں رہنے والے اقلیتی لوگوں اور کئی جموں کشمیر میں رہنے والے ملازمین یا کام کرنے والے مزدوروں کے خلاف ایک مہم جتلاتے ہیں،مگر ان ہلاکتوں کو صرف اسی پس منظر میں دیکھنے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اٹھارہ مہلوک لوگوں پر نظر ڈالتے ہیں، ان میں سے اقلیتی فرقے سے تین غیر ریاستی، اسی فرقے کے تین ریاستی جبکہ اکثریتی فرقے کے بارہ لوگ بندوق برداروں کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ ہم اعدادو شمار کو اگر ایک الگ نظریہ سے دیکھیں گے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اٹھارہ مہلوک میں سے جموں کشمیر کے پندرہ لوگ شامل ہیں، یعنی وہ لوگ جموں کشمیر کے لوگوں کو ہی نشانہ بنا تے جارہے ہیں۔ گویا اپنے اپنوں کو ہی مارتے ہیں۔ہر ایک ہلاکت کے بعد عام لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر مرنے والے کا کیا قصور تھا ؟
ٌ۔۔کسی کو مار کے خوش ہو رہے ہیں
۔۔کہیں پہ شامِ غریبان کہیں دیوالی ہے۔
اس وقت جو ناحق مارا ماری ہو رہی ہے وہ کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے اس کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں اگرچہ کہ وہ کم ازکم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ سیکورٹی فورسز کے ناکے ہرجگہ ہیں اور اکثر اوقات بیچ راستے میں لوگوں کو گاڑیوں کو روک کر تلاشی لی جارہی ہے۔اس کے باوجود ملی ٹنٹ کسی بھی جگہ دستی بم چلاتے ہیں یا قریب سے کسی پر گولی چلا کر ہلاک یا زخمی کرتے ہیں۔ گویا سیکورٹی فورسز بھی اس سلسلے میں لاعلم ہی ہوتے ہیں کہ کب اور کہاں، کیا ہوگا۔ یہ الگ ہی بات ہے کہ گولی چلانے والوں کو چند ہی روز میں نیوٹرل کیا جاتا ہے۔
کشمیر میں اس وقت سیاحوں کا کافی رش ہے۔کشمیر میں خراب حالات اور دو برسوں سے کووڈ وائرس کی وجہ سے سیاحوں کی آمد پر حکومت کی طرف سے قدغن لگا دی گئی تھی۔ رواں برس ہم نے یہ دیکھا ملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد وادی میں سیاحت کے لئے آ رہے ہیںاور ذرائع ابلاگ کے مطابق بیشتر ہوٹلوں میں نوے فیصد بکنگ ہو چکی ہے۔ اس پس منظر میں بے گناہ لوگوں کے قتل سے ٹورسٹ انڈسٹری کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ حالیہ ہلاکتوں کے بعد وادی، جموں،دلی اور ممبئی میں لوگوں نے احتجاج مہم شروع کی ہے اور ان مظاہروں کی وسیع پیمانے پر تشہیر بھی ہو رہی ہے۔ اگر معصوم لوگوں کی ہلاکتیں بند نہ ہوئیں تو ظاہر ہے کہ ملک کے کئی شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوتے رہیں گے اور اس سے سیاحوں کی آمد پر منفی اثر پڑے گا۔ اس طرح سیاحت سے وابستہ ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی پر بھی اثر پڑے گا۔
حکومت اگرچہ کہ اپنی طرف سے عام لوگوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے تاہم بدلے ہوئے حالات کو مد نظر رکھ کر اور بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی اہلکاروں کے علاوہ جموں کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے بھی مدد لی جا سکتی۔ اگر حکومت تشدد کی اس نئی لہر پر بہت جلد قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو تے ہے تو اس کا اثر امرناتھ یاترہ کے علاوہ سیاحتی شعبے پر بھی پڑے گا۔اور اگر حکومت بے بس ہوئی تو لوگ حکومت کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہوں گے۔
