• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

میں استاد کیوں نہ بنوں؟

Online Editor by Online Editor
2022-06-16
in رائے, کالم
A A
میں استاد کیوں نہ بنوں؟
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:میر حسین
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کا مسرت ترین ملک finland ہے؟ جی ہاں رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے یہ ملک چھوٹا ضرور ہے لیکن یہاں کے لوگ دنیا کے دوسرے ممالک کی بنسبت بہت خوش اور مطمئن ہیں۔ finland دنیا کے ممالک میں وہ ملک ہے جہاں استاد کے پیشہ کو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے برعکس بہت زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں دوسرے پیشوں کی بنسبت معلمی کے پیشے کو فوقیت حاصل ہے۔ اس ملک کی خوشحالی کے پس منظر میں تعلیم کا اہم کردار ہے۔ یہاں کے عوام کو یقین ہے کہ تعمیر و ترقی کا اصل راز تعلیم و تربیت پر منحصر ہے اور صحیح تعلیم و تربیت کے پیچھے بہترین اور تجربہ کار اساتذہ کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔
اسی طرح دیگر مختلف ترقی یافتہ ممالک میں بھی معلمی کے پیشے کو عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن بہت سارے ملکوں میں اس پیشے کو حقارت کی نظر سے دیکھ کر معلم کو مجبور اور حقیر جانا جاتا ہے۔ اقوام عالم میں جو قوم استاد جیسے عظیم المرتبت کام کرنے اور عہدہ کو سنبھالنے والے کو کمتر سمجھے وہ قوم کچل کر مسل دی جاتی ہے۔ وہ قوم روزبروز الگ الگ مسائل اور مصائب کا شکار ہوتی ہے، وہ قوم ترقی کے منازل طے کرنے میں نہ صرف ناکام رہتی ہے بلکہ تنزلی کا شکار ہو کر ابدی رسوائی کو دعوت دیتی ہے۔
اسلام کی نگاہ میں معلّمی اور معلم کو عظیم اور اعلی پیشہ اور ذمہ داری کے بہ طور پیش کیا گیا ہے۔
لہذا عزیز دوستو! اس میدان کے چناؤ سے پہلے خوب سوچ بچار کرو۔ پہلے اپنے ذہن کو تیار کرو، پہلے اپنے وجود کو قربانی کا ذائقہ چکھا دو، پہلے خود میں ڈوب کر خودی کے معترف ہو جاؤ، پہلے خود کے نفس کا تزکیہ کرو کیونکہ اس عظیم کام میں آپ کی تعلیم سے زیادہ آپ کی تربیت اور کردار کا اثر بچوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس عظیم میدان کو چننے سے پہلے ایک بار ضرور سوچئے گا کہ آپ ایک ملک کی نمائندگی کرنے جا رہے ہیں، آپ ایک قوم کو تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ آپ کوئی بھی مضمون کیوں نہ پڑھاتے ہوں لیکن آپ صرف اپنے مضمون سے منسلک نہیں رہ سکتے۔ آپ ہر فن مولا ہونا چاہیے کیونکہ آپ نے قوم کے لئے لیڈر تیار کرنا ہے کہ لیڈر ہر فن مولا ہوتا ہے۔
دنیا کی نگاہ میں استاد:

1. "Wise teachers have a great deal of knowledge, they are normally aware of their value.” ~imam Khamenei
2. "A nation will prosper to the degree that it honours its teachers.” ~plato~
3. "Teaching is a calling too. And i have always thought that teachers in their ways are holy-angles. Leading their focus out of the darkness.” ~Jeannette walls~

معلوم ہوتا ہے کہ معلمی کا پیشہ پوری دنیا کی نظر میں مقدس اور عظیم ہے۔ اسلام استاد کی عظمت کو بارہا بیان کر رہا ہے۔ موجودہ دور میں اس پیشے سے وابستہ افراد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ہر سطح پر اساتذہ کی بھرمار ہے۔ اتنی فراوانی کے باوجود عملی میدان میں سماج آئے روز کیوں اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی لحاظ سے پستی کا شکار ہو رہا ہے۔ درس و تدریس کے عمل میں آجکل کوئی بھی قوم پیچھے نہیں ہے لیکن باوجود اسکے ہر قوم روزافزوں اقدار انسانیت کے لحاظ سے بدترین کیوں ہوتی جارہی ہے؟ جی ہاں دوستو! اصل بات یہ ہے کہ قوم کے معمار تعمیری نہیں تخریبی کام میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔
جہاں معیار درس و تدریس گراوٹ کا شکار ہے وہی غیر معیاری معلمین کی بہتات نے نظامِ تعلیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ دور قدیم میں اساتذہ کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی لیکن ان کا درسی معیار ان کے خلوص پر مبنی تھا، اس لئے نتیجہ بھی خالص علم کی شکل میں برآمد ہوتا تھا۔ انہوں نے استاد کے پیشے کو جزبہ انقلاب سمجھ کر لیا تھا اس لیے وہ شاگردوں کے قلوب کو منقلب کیا کرتے تھے۔ انہوں نے معلمی کو مقدس، نازک اور الہی ذمہ داری سمجھا تھا اس لیے ان اسکولوں سے نکلنے والے شاگردوں میں پاکیزگی، سلیقہ اور ذمہ داری کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ انہوں نے اس عظیم پیشہ کو نوکری نہیں بلکہ زندگی سمجھا تھا اسلئے ان کے بچے حیات جاویدانی پاتے تھے۔ انہوں نے خود کو استاد کم اور طالب علم زیادہ سمجھا تھا اسلئے اُنکے شاگرد منکسرالمزاج اور نرم دل ہوا کرتے تھے۔ وہ معلمی سے حاصل ہونے والی قلیل کمائی کو رحمت الہی اور حلال سمجھتے تھے اس لئے ان کے شاگرد حلال و حرام میں امتیاز کر پا رہے تھے۔
برعکس اس کے آج کے دور کے اساتذہ میں اکثر اوپر بیان کئے گئے شعاعوں میں کوئی خاطر خواہ نور کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔ انقلاب اور جذبہ نو سے عاری دلوں کے مالک موجودہ دور کے اساتذہ نے اہداف تعلیم و علم کو کھو دیا، جس کا خمیازہ آئندہ دور کی پرستار موجودہ نسل کے شاگردوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آپ اکثر طالب علموں سے سنو گے کہ آج کے معلمین اپنی پرواہ زیادہ جبکہ طلباء کی مستقبل کی پرواہ بہت کم کرتے ہیں جو قدیم معمار قوم میں قطعی نظر نہیں آتا تھا۔
اپنے معیار زندگی کو بڑھانے کے چکر میں آج کے اساتذہ نے علم کو بیچ دیا ہے۔ انہوں نے نور تعلیم کو خرید و فروخت کی صورت میں تبدیل کیا ہے۔ اسلیے ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر کے بچوں میں استاد کی قربت اور ہمدردی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ نہ صرف محبت و ہمدردی بلکہ آج کل کے شاگرد استاد کے اعتماد، خلوص نیت اور دیگر چیزوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کیونکہ معلمی اب ہر بے بس اور بے روزگار کی آخری امید ثابت ہورہی ہے۔ عصر حاضر کے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے اقداراعلی معیار میں نمایاں کمی نظر آرہی ہے کیونکہ تعلیم کے نور کو نوکری جیسے پست ہدف کے لئے قربان کر دیا گیا۔
میرے عزیز دوستو! معلمی جیسے پیغمبرانہ پیشہ میں آنے سے پہلے خود کو سنوارنا بہت اہم ہے۔ خدا کے لئے اس میدان کو دل سے اختیار کرو ورنہ نہ کرو۔ معمولی تنخواہ اور وقت کی ضیاع کیلئے اس عظیم اور مقدس کام کو بد نام نہ کرو۔ پہلے اپنے نفس اور ضمیر کو بیدار کرو اور اسے سمجھاؤ کہ یہ ذمہ داری ہے نوکری نہیں، یہ ہدف ہے ذریعہ نہیں، یہ تعمیر ہے تخریب نہیں، یہ انسان سازی ہے انسان شکن نہیں، یہ اقدار الہی کی پاسبان ہے لوٹ مار نہیں، یہ امانت الہی ہے خیانت نہیں، یہ قوم کے مستقبل کو بنانا ہے بگاڑنا نہیں۔
حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ جب اساتذہ اسکولوں میں بچوں سے ان کے مقصد کے بارے میں پوچھتے ہیں تو بچوں کا ردعمل اکثر ڈاکٹر، انجینئر یا دیگر شعبوں کے متعلق زیادہ جبکہ معلم بننے کا اشتیاق بہت کم نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کہیں معمار قوم تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو اس پیشے کی نفرت کا جام تو نہیں پلاتا؟ کہیں استحصال کا شکار یہ استاد شاگردوں کو غیر شعوری طور پر اس بات کی تلقین تو نہیں کرتا کہ استاد بننے سے زندگی نہیں بنتی کیونکہ اس میں تنخواہ کی بہت کمی ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے خود معلمیت کا حال دیکھ کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوتے ہوں۔ مجبور نگاہ سے دیکھے جانے والے لاچار اساتذہ کے پیشے کو شاگرد اس لیے پسند نہیں کرتے!
☆ کیونکہ وہ اپنے سامنے مقدس پیشے کو خوشنما اساتذہ کے ہاتھوں مسمار ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
☆ کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب اس پیشہ کی نیت میں خلوص کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔
☆ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ معلمی تجارت پیشہ اور ذہن والے افراد کے ہاتھوں میں تجارت بنکے رہ گیا ہے۔
☆ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس میدان میں قربانیاں دے کر امیدوں کی دنیا سے مبرا رہنا ہے۔
☆ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ استاد کا پیشہ مظلوم ترین پیشہ میں تبدیل کیا گیا ہے۔
☆کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انسانیت کے بیچ بونا اب معلمین کے بس کی بات نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ استاد کے پیشے کے معیار کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ ہر سطح پر صحیح افراد کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب معلمینِ جہاں کے ہاتھوں جہاں ویران ہو جائے گا اور ہم خاموش تماشائی بننے کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ۔ہر قوم و ملت کو سمجھنا چاہیے کہ تعلیم اور معلم ہی قوم کو عروج کی راہیں دکھا سکتا ہے ۔ہر سطح پر تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے معیار کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

جنگلی جانوروں اور آوارہ کتوں کی یلغار

Next Post

توہین رسالت۔بنگلہ دیش خاموش کیوں ہے؟

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
توہین رسالت۔بنگلہ دیش خاموش کیوں ہے؟

توہین رسالت۔بنگلہ دیش خاموش کیوں ہے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan