اوڑی سے اطلاع ہے کہ جنگلی جانوروں کی طرف سے کئے گئے حملے میں تین معصوم بچوں کی جانیں چلی گئی ہیں ۔ اس کے بعد یہاں محکمہ جنگلات کی طرف سے ہائے الارٹ کا اعلان کیا گیا ۔ لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ احتیاط سے کام لیں اور جنگلی جانوروں کے حملے سے بچنے کی کوشش کریں ۔ خاص طور سے چھوٹے بچوں کو شام کے وقت گھروں سے باہر جانے سے احتراض کرنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ اس دوران علاقے کے رینج آفیسر نے اپنے اہلکاروں سے مبینہ طور حملہ آور تیندوے کے خلاف کاروائی کرکے اسے مار ڈالنے کے لئے کہا ہے ۔ یاد رہے کہ اوڑی کے بونیار علاقے میں پچھلے کچھ دنوں کے دوران مبینہ طور ایک تیندوے کے حملے سے یکے بعد دیگرے تین بچے ہلاک کئے گئے ہیں ۔ اس وجہ سے پورے علاقے میں خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔ لوگ الزام لگارہے ہیں کہ ان کی طرف سے کئی بار اپیل کرنے کے باوجود محکمہ جنگلات اور پولیس کی طرف سے بروقت کوئی کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے معصوم جانیں ضایع ہوگئی ہیں اور لوگ اب تک خطرہ محسوس کررہے ہیں ۔ ان لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ فوری کاروائی نہ کی گئی تو مزید جانوں کے چلے جانے کے خطرے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ ادھر سرینگر کے علاوہ دوسرے کئی علاقوں سے اطلاع ہے کہ آوارہ کتوں کی یلغار کی وجہ سے لوگوں کا بازار یا دوسری جگہوں کو جانا ناممکن بن گیا ہے ۔ سوپور میں پچھلے ہفتے کہا جاتا ہے کہ دو درجن کے قریب افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹ ڈالا جن میں زیاد تر معصوم بچے شامل ہیں ۔ اس طرح کی تازہ ترین اطلاع پلوامہ سے ملی ہے جہاں مبینہ طور آوارہ کتوں کی ہڑبونگ کے نتیجے میں درجنوں افراد کو کاٹ ڈالا گیا ہے ۔ علاقے کے کئی دیہاتوں سے خبر ملی ہے کہ آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد نے لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں لوگ سخت پریشانیوں سے دوچار ہیں اور آوارہ کتوں کے خوف کی وجہ سے گھروں سے باہر آنا مشکل ہورہاہے ۔ لوگوں میں خوف و دہشت کا ماحول پایا جاتا ہے ۔ ان علاقوں کے لوگوں نے اپیل کی ہے کہ آوارہ کتوں کو قابو میں کرکے ماحول کو لوگوں خاص کر اسکول جانے والے طلبہ کے لئے سازگار بنایا جائے ۔
جنگلی جانوروں کا خوف خاص طور سے جنگلی علاقوں کے قرب و جوار میں بسنے والوں کے لئے ایک سخت مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ اس حوالے سے کا جاتا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے جنگلی جانوروں نے انسانی آبادیوں کا بڑے پیمانے پر رخ کیا ہے ۔ خاص طور سے ریچھ ، تیندوے اور دوسری ایسی حیاتیات نے جنگلوں کے بجائے بستیوں میں رہنا شروع کیا ہے ۔ اس بارے میں کئی طرح کی آرا کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگلوں کے اندر انسانی مداخلت بڑھ جانے کی وجہ سے جنگلی جانوروں نے زیریں علاقوں کی طرف رخ کیا ہے ۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے جنگلی علاقوں میں پانی اور پھلوں کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ جنگلی جانوروں کو اپنے لئے خوراک تلاش کرنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ خاص طور سے نئی نسل کو پالنا ان کے لئے سخت مشکل بن گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلی جانوربستیوں کا رخ کرنے لگے ہیں ۔ یہاں خوراک کی تلاش کے دوران کم سن اور معصوم بچوں کواچک کر لے جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ پچھلے چند سالوں کے دوران مسلسل ایسے واقعات پیش آنے کے باوجود محکمہ جنگلات اس طرف توجہ دینے سے قاصر ہے ۔ محکمے کی کوشش رہتی ہے کہ ایسے جانوروں کو قابو میں کرکے واپس گھنے جنگلوں میں چھوڑا جائے ۔ لیکن بعض درندوں کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ ان کو ایک بار انسانی خون کی لت پڑجائے تو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ ایسے جانور بار بار انسانی بستیوں کا رخ کرکے یہاں انسانی جانوں کو تلف کرنے کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اسی طرح آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد نے لوگوں کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ سرینگر میونسپل کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کتوں کی تعداد کم کرنے میں کچھ سال لگ جائیں گے ۔ ان سالوں کے دوران لوگ اپنی معمولات کو کیسے جاری رکھیں گے اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں دیا گیا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسے عمل کو راتوں رات پورا نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ کئی سالوں سے اس کام کو انجام دینے کے دعووں کے باوجود آج تک آوارہ کتوں سے چھٹکارا ملنا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ اسکولوں ، ہسپتالوں اور بازاروں کے آس پاس آوارہ کتوں کے ریوڑ نظر آرہے ہیں ۔ اس وجہ سے معمول کی سرگرمیاں انجام دینا مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف بن گیا ہے ۔ ی افسوس کی بات ہے ۔
