
جب سوشل میڈیا اور مغرب میں گلیوں میں اسقاط حمل پر تقریباً کلی پابندی لگانے کے خلاف شور و غوغہ برپا ہے، بھارت نے ایسے وقت میں اسقاط حمل کے معاملے میں فیاضانہ نظریے کا مظاہرہ کیا ہے جو ایک تسکین آمیز مثال ہے۔ تجارتی بنیاد پر کرائے پر کوکھ حاصل کرکے بچہ پیدا کرنے کے معاملے میں جو رعایت دی گئی ہے اور مردوں اور عورتوں کی شادی کی عمر کو یکساں بنانے کی تجویز کے ساتھ دونوں معاملات کو یکجا کرکے بھارت نے اپنے آپ کو بڑے محفوظ طریقے سے ان ممالک کی صف میں پہنچا دیا ہے جو تولیدی خودمختاری کا تحفظ کرتے ہیں۔
بھارت کی آئینی روایات میں آرٹیکل 21 کے توسط سے ذاتی آزادی کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اسقاط حمل یا جنین کا نکالا جانا خواتین کا اپنا خصوصی اختیار ہے۔ جہاں ایک جانب خواتین کو بطور خاص بچہ پیدا کرنے کے لیے ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کیونکہ حیاتیاتی لحاظ سے وہی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہیں۔ سماجی۔ ثقافتی بندشیں بھی خواتین کو غیر متناسب انداز میں بچوں کی پرورش کے لیے مجبور کرتی ہیں۔
طبی طریقہ سے اسقاط حمل (ترمیمی ) ایکٹ 2021 صحیح سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے، اس کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ حاملہ مائیں اپنے گھروں میں نئی زندگی کی آمد کے معاملے میں اپنا فیصلہ خود لے سکتی ہیں۔ ایکٹ کے زیر اہتمام اسقاط کا عمل ماں کی زندگی کے خطرات کی بنیاد پر استقرار حمل کے 24 ہفتوں کے اندر ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس میں متعلقہ خاتون کو لاحق ہونے والی ذہنی پریشانی، جنسی زیادتی، ممنوعہ تعلقات کے نتیجہ میں قرار پانے والا حمل، مانع حمل کے ذرائع کی ناکامی یا جنین کے اندر لاحق غیر فطری نقائص کی تشخیص وغیرہ شامل ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت یہ انتظام کیا گیا ہے کہ ایم ٹی پی ایکٹ 1971 کے ذریعہ 20 ہفتوں کی چنوتی کو مدنظر رکھا جائے اور صحت اور تولیدی سائنس کے شعبہ میں رونما ہونے والی ترقیوں کے مثبت ردعمل کا بھی لحاظ رکھا گیا۔ یہ ان ممالک کے مقابلے میں ایک لچیلی حصولیابی ہے جہاں اسقاط استقرار حمل کے فوراً بعد سے ہی ممنوع قرار پایا ہے۔ یہاں تک کہ جنسی زیادتی یا ممنوعہ جنسی تعلقات کے نتیجہ میں قرار پانے والے حمل کی ازحد پریشان کن صورتحال میں بھی اسقاط حمل کی قطعاً کوئی اجازت نہیں ہے۔
ایم ٹی پی ایکٹ 2021 اس انداز میں وضع کیا گیا ہے جس سے اس ایکٹ کے وضع کرنے والوں کے وجدان اور دور اندیشی کی تصدیق ہوتی ہے۔ بچے پیدا کرنے کے لیے حاملہ عورت ذہنی اور جسمانی طور پر کتنی تیار ہے اور وہ بچے چاہتی بھی ہے یا نہیں، یہ تمام تر پہلو فیصلہ کن انداز میں ماؤں، کنبوں اور اسی طرح سے بچوں کے اندازِ حیات کے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ ان چاہا حمل غیر متوقع طور پر والدین خصوصاً ماؤں کے متبادل کے مواقع کی تخفیف کرتا ہے اور اس صورت میں ان کی ذہنی خیر و عافیت اور ذاتی نشو و نما کے امکانات بھی محدود ہو جاتے ہیں۔
مزید برآں ناخواستہ حمل کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں کو تخفیف شدہ مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈبلیو ایچ او ناخواستہ بچوں کی پیدائش کو ان کی تعلیم کے معاملے میں والدین کی جانب سے کی جانے والی افزوں سرمایہ کاریوں کے عدم امکانات کی شکل میں دیکھتا ہے۔ حال ہی میں منظور شدہ ایم ٹی پی ایکٹ ماؤں کو جذباتی اور مالی بندشوں سے راحت فراہم کرتا ہے، یعنی وہ ناخواستہ حمل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
مجاز قانون اور پالیسی سازوں نے بڑی ہنر مندی سے تولیدی متبادل کو دائرہ حیات کے ساتھ ماہرانہ انداز میں مربوط کر دیا ہے، کیونکہ زرخیزی ، بچہ پیدا کرنا اور بچوں کی پرورش لازمی طور پر شادی سے مربوط ہیں۔ لہٰذا خواتین کے لیے شادی کی قانونی عمر میں اضافے کی تجویز کے ذریعہ، پالیسی ساز اس لائق خیر مقدم تبدیلی کا اعلان کر رہے ہیں جس کے توسط سے استقرارِ حمل میں تاخیر پیدا ہو سکتی ہے۔
اطفال کی شادی کی روک تھام (ترمیمی) بل 2021 کا مقصد یہ ہے کہ خواتین کی شادی کی عمر 18 برس سے بڑھا کر 21 برس کر دی جائے۔ یہ بل ڈبلیو ایچ او کی اسکالرشپ اور یہ اس کے ذریعہ پیش کی گئی شہادت کی بنیاد وں پر مشتمل ہے جس کے تحت 10 سے 19 برس کی نوخیز ماؤں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ 20 سے 24 برس کی عمر کی خواتین کے مقابلے میں وضع حمل کے دوران کہیں زیادہ بے ہوشی، وضع حمل سے متعلق پیچیدگیوں اور لگاتار سلسلے کے تحت لاحق ہونے والے چھوت سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔ ایسی ماؤوں کے یہاں پیدا ہونے والے بچے اضافی طور پر کم وزن کے ساتھ، پیچیدہ وضع حمل اور نوزائیدہ بچوں کو لاحق ہونے والی شدید پیچیدگیوں کے ساتھ پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ بچہ پیدا کرنے یا بچوں کی تعداد محدود کرنے کے سلسلے میں خاندانی منصوبہ بندی کی عدم تکمیل شدہ ضروریات این ایف ایچ ایس ۔ 4 (2014۔15) سے این ایف ایچ ایس ۔ 5 (2019۔21) کے درمیان 12.9 فیصد سے گھٹ کر 9.4 فیصد کے بقدر ہوگئی ہیں۔ تاہم، اگر ایک تنہا مثال کو بنیاد بنائیں تو 15 سے 19 برس کی تقریباً 7 فیصد خواتین پہلے سے ماں بن چکی ہیں یا این ایف ایچ ایس۔5 کے وقت حاملہ تھیں۔ یہ این ایف ایچ ایس۔ 4 کے 7.8 فیصد کے مقابلے میں تھوڑی سی تخفیف کہی جا سکتی ہے۔ اس طرح کی نو عمر مائیں بچوں کو پستان سے دودھ پلانے کے طور طریقوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے طریقوں سے ناقص طور پر واقف ہوتی ہیں اور اس بات کے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں کہ ان کے بچے ساکت یا نقص کے حامل ہو جائیں۔ ایم ٹی پی ایکٹ 2021 اور پی سی ایم اے بل 2021 دونوں ایک ساتھ مل کر اگر قانون بن جاتے ہیں تو یہ قانون قبل از وقت شادی، نتیجہ میں لاحق ہونے والے استقرارِ حمل اور ناقص ماں اور بچے کی صحت جیسے مضر نتائج کی روک تھام میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ایک دیگر بے باکانہ پالیسی اختراع والا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس نے کرائے پر کوکھ حاصل کرنے کے بازار کا سدباب کیا ہے جس کے تحت کرائے پر کوکھ حاصل کرکے بچے پیدا کیے جا رہے تھے۔ عالمی عدم مساوات کے پیش نظر بھارت کرائے پر کوکھ دینے والی ماؤں کے لیے ایک پرکشش حیاتیاتی منڈی بن گیا تھا۔ نادار بھارتی خواتین کے جسم عالمی شمال کے باشندگان کے لیے حیاتیاتی لحاظ سے دستیاب ہوگئے تھے، جس کے نتیجہ میں ماں بننے کا عمل تجارت کی شکل لے چکا تھا۔ خواتین صرفے کی چیزیں بن گئی تھیں اور ان کی تولیدی صلاحیت گھٹ رہی تھی۔ بھارت کو اس لحاظ سے بچہ پیدا کرنے کا کارخانہ کہا جانے لگا تھا جہاں بچے بہتاط میں پیدا ہوتے ہیں ۔ کرائے پر کوکھ دینے والی خواتین کا استحصال اور معاوضے کی عدم ادائیگی بھی اس سے جڑی ہوئی تھی۔ ایک ایسا ملک جہاں ماؤں کو عقیدت سے دیکھنے کی ایک دیرینہ اور طویل روایت رہی ہے، وہیں تمام تر پہلوؤں سے بے نیاز تجارتی طور پر کرائے پر کوکھ دینے کا طریقہ کار یہاں کی ثقافتی روایات کے یکسر برعکس طریقہ کے طور پر رائج ہو گیا تھا۔
اس برعکس صورتحال کے تئیں ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کرائے پر کوکھ فراہم کرنے (ریگولیشن) ایکٹ 2021 نے تجارتی طور پر کرائے پر کوکھ فراہم کرنے کے طریقہ کا سدباب کیا اور اس کی جگہ اخلاقی اور خیرسگالی کے طورپر اس عمل کی اجازت دی گئی۔ یہ ایکٹ ایسے جوڑوں کو روکتا ہے جو بھارت نژاد نہ ہوں اور وہ اس ملک میں کرائے پر کوکھ حاصل کرکے بچہ پیدا کرنے کے خواہش مند ہوں۔ اس ایکٹ کے تحت صرف اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ صرف مستند طبی وجوہات کی بنیادپر مقامی افراد کرائے پر کوکھ حاصل کرنے کے متقاضی ہو سکتے ہیں۔ ایم ٹی پی ایکٹ ، سروگیسی ایکٹ پی سی ایم (ترمیمی) بل 2021 مجموعی طور پر ناری شکتی کو ایک نئے معنی عطا کرتے ہیں۔
اس سازگار سیاسی۔ قانونی وسیلے کے تحت حکومت نے ایسی پالیسیاں وضع کی ہیں جو آسانی کے ساتھ خواتین کے ذریعہ اختیار کیے جانے والے متبادلوں اور فیصلوں کے احترام کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ آیوشمان بھارت۔ جن آروگیہ یوجنا (پی ایم ۔ جے اے وائی)، کے تحت فی کنبہ 5 لاکھ روپئے کا سالانہ کور فراہم کرایا جا تاہے اور پیچیدہ وضع حمل اور متعدد امراض نسواں سے متعلق معاملات میں مختلف النوع پیکج فراہم کرائے جاتے ہیں۔ جبکہ پردھان منتری ماترو وندنا یوجنا (پی ایم ایم وی وائی) جزوی طور پر وضع حمل کے پہلے اور وضع حمل کے بعد لاحق ہونے والے اجرت خسارے کی بھرپائی کرتا ہے۔ پردھان منتری سرکشت ماترتوا ابھیان (پی ایم ایس ایم اے) کے تحت ہر مہینے کی 9 تاریخ کو حاملہ خواتین کی زچگی سے متعلق نگرانی کی سہولت مفت فراہم کرتا ہے۔ اس طرح سے حاملہ خواتین کا مالی بوجھ کم ہو جاتا ہے۔
نہ صرف یہ کہ حکومت خواتین کے لیے تولیدی متبادل اپنانے کے معاملے میں جامع کوششیں کر رہی ہے ، بلکہ اپنی جانب سے جننی سرکشا یوجنا کے تحت ادارہ جاتی وضع حمل کی سہولتوں کی فراہمی اور زچگی کے دوران لکشیہ جیسی اسکیموں کے تحت زچگی والے کمرے میں باوقار حفظانِ صحت سہولتیں فراہم کرکے اس کوشش کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ یہ کوششیں اس نتیجہ پر مرتکز ہوئی ہیں کہ این ایف ایچ ایس ۔ 4 میں ادارہ جاتی زچگیوں کی تعداد جو اس وقت 79 فیصد کے بقدر تھی، وہ این ایف ایچ ایس۔ 5 میں بڑھ کر تقریباً 89 فیصد کے بقدر ہوگئی ہے۔ ملک کو آخرکار یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ ماؤں کے عرصہ حیات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی 2011۔13 کے دوران رونما ہونے والی ماؤں کی شرح اموات کا تناسب (ایم ایم آر) 167 فی لاکھ زندہ پیدائشوں کے مقابلے میں گھٹ کر 2019 میں 103 فی لاکھ زندہ پیدائشوں کے بقدر ہوگیا ہے۔
موجودہ حکومت اپنی بہو روپی بیٹیوں کے لیے اعلیٰ ترین احترام کا جذبہ رکھتی ہے جو اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں نہ صرف یہ کہ مشفق مائیں ہوتی ہیں بلکہ مخلص طالبات، قابل قدر ملازمین اور پرجوش صنعت کار بھی ہوتی ہیں۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ تحریک اسی مقصد سے چلائی گئی ہے کہ لڑکیاں پیدا ہوں اور ان کی پرورش ہو اور اسی طرح سے ان کا صنفی تناسب فی ایک ہزار مردوں پر بڑھ کر 1020 کے بقدر ہو گیا ہے۔ اُجوَلا اور جل جیون مشن جیسی اسکیموں نے گھروں میں خواتین کے لیے دستیاب وقت میں اضافہ کیا ہے ۔ ان اسکیموں نے خواتین کو ایندھن جمع کرنے یا پانی ڈھو کر لانے کی چاکری سے راحت فراہم کی ہے اور وہ اپنے اس وقت کا استعمال منفعت بخش سرگرمیوں کے لیے کر سکتی ہیں۔ مدرا یوجنا نے خواہش مند صنعت کار خواتین کو ضمانت سے مبرا قرضے فراہم کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اور ایک دوسری اسکیم یعنی وزیر اعظم کا روزگارفراہمی پروگرام وہ پروگرام ہے جس نے خواتین کے لیے اعلیٰ ترغیبات یا سبسڈی کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔
جہاں ایک جانب مغرب اسقاط حمل کے حقوق میں تخفیف میں مشغول ہے، بھارت قابل اجازت اسقاط کی حدود میں اضافہ فراہم کر رہاہے ، یعنی اسے توسیع دے رہا ہے۔ جہاں حیض سے متعلق صحت اور معاملات دنیا کے دیگر حصوں میں اب بھی دھیمے الفاظ میں بیان ہوتے ہیں، وزیر اعظم مودی نے اس موضوع اور مسئلے کو لال قلعہ کی فصیل سے اٹھایا اور 1.3 بلین بھارتیوں نے اسے بغور سنا۔ طلاق ثلاثہ کو خلاف قانون قرار دے کر حکومت نے مسلم خواتین کےذریعہ دائمی پیمانے پر درپیش عدم تحفظ کے احساس کا خاتمہ کیا ہے اور انہیں سکون فراہم کیا ہے۔ قابل اجازت شادی کی عمر پر نظرثانی کرنے کی تجویز کے ذریعہ حکومت نے مردوں اور عورتوں کی شادی کی عمر کو یکساں بنانے ، بغیر کسی طرفداری کے یکساں معیارات پر لانے کی بات کی ہے۔ موجودہ حکومت نے اس طریقہ سے بڑی ہی احتیاط کے ساتھ پالیسی سازی کے عمل میں تمام ضروری پہلوؤں کو شامل کیا ہے اور اس بات کی پوری امید ہے کہ اس سے آنے والی پیڑھیوں میں ماؤں اور بیٹیوں کی زندگیاں بہتر بنیں گی۔ جہاں ایک جانب مغرب پیچھے ہٹ رہا ہے، بھارت آگے بڑھ رہا ہے اور ایک ترقی پسند معاشرے کی تعمیر کیسے کی جائے اس کے لیے اپنی جانب سے خوبصورت انداز میں رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔
