• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

لداخ کی سیر(سفر نامہ)

Online Editor by Online Editor
2022-07-16
in رائے, کالم
A A
لداخ کی سیر(سفر نامہ)
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:سبزار احمد بٹ

بنی آدم روزِ اول سے ہی نئی چیزیں تلاش کرنے اور نئی نئی جگہیں دیکھنے کا شوقین رہا ہے قدرت نے یہ کائنات حسین اور خوبصورت بنائی ہے انسان جب نئی نئی جگہیں دیکھتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے کہ قدرت نے ایک سے بڑھ کر ایک جگہ دنیا میں بنائی ہے ایسا کرنے سے ایک تو انسانی ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور دوسرا انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت کا کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے اور انسان اپنے رب العزت کے سامنے سر بہ خم ہوجاتا ہے اور کائنات کے اس خالق کا شکریہ ادا کرتا ہے۔مجھے بھی نئی جگہیں دیکھنا اور قدرت کے بنائے ہوئے ااس کائنات کی خوبصورت اور سیاحی مقامات کی سیر کرنا اچھا لگتا ہے حال ہی میں گرمی کی شدت کو مد نظر رکھتے ہوئے محکمہ تعلیم نے سرمائی تعطیلات کا اعلان کیا ہے اس دوران کچھ یاروں نے لداخ کی سیر کا منصوبہ بنایا۔میں بھی کبھی لداخ کی سیر کو نہیں گیا تھا اس لیے میں بھی اس گروپ میں شامل ہو گیا اور ہم سب 4 جولائی 2022 کی صبح 6 بجے اپنے ضلح کولگام سے لداخ کی طرف روانہ ہوئے آٹھ گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد ہم دن کے تین بجے سونہ مرگ، بال تل اور دراس سے ہوتے ہوئے کرگل پہنچے ۔ اس دوران بال تل تک اگر چہ سفر قدرے بہتر رہا تاہم بال تل سے زیرو پوینٹ (zero point) زوجیلا تک راستہ انتہائی خراب تھا جس کی وجہ سے سفر دشوار گزار رہا زوجیلا کے مقام پر سڑک نہ صرف خراب ہے بلکہ کافی اونچائی اور جگہ جگہ پر موڑ ہونے کی وجہ سے گاڑی چلانے میں کچھ کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ زوجیلا سطح سمندر سے 3528 میٹر کی بلندی پر واقع ہے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اس سڑک پر جگہ جگہ سڑک کو مزید کشادہ اور بہتر بنانے کے لیے کام شد و مد سے جاری تھا .زوجیلا پہاڑی پر راستہ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ پُر خطر بھی ہے اور بارشوں کے دوران یہ راستہ اور بھی بھیانک شکل اختیار کر لیتا ہے تاہم زوجیلا ٹنل پروجیکٹ پر کام جاری تھا یہ ٹنل سونہ مرک سے شروع ہوگا ایک بار ٹنل مکمل ہونے پر کرگل جانا بہت آسان بن جائے گا یاد رہے کہ کرگل پرانے زمانے سے ہی تجارت کا مرکز رہا ہے اور سلک روٹ بھی کرگل سے ہی سینٹرل ایشیا کی جانب جاتا تھا اور اسی روٹ کے زریعے تمام تر تجارتی سرگرمیوں کو انجام دیا جارہا تھا کرگل پہنچ کر ہم نے وہاں کے منشی عبدل العزیز میوزیم کا بھی مشاہدہ کیا۔ اس میوزیم کو اگر کرگل کی تہذیب و ثقافت کا نمونہ قرار دیا جائے تو بیجا نہ گا میزیم میں پرانے زمانے میں استعمال ہونے والے تالے، چابیاں ٹوپیاں، کپڑے بندوق، جوتے غرض روز مرہ کی ہر چیز محفوظ کی گئی تھی اور ہر چیز کے ساتھ باضابطہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ یہ چیز کس زمانے میں استمال ہوتی تھی اس میزریم میں شاہ ہمدان کے وقت کا ہاتھ سے لکھا ہوا قران پاک کا ایک نسخہ بھی موجود ہے ۔بندبستی کے نسخوں کے علاوہ مختلف زمانوں میں استمال ہونے والی کرنسی کے نمونے بھی موجود تھے ۔خیر اس میزیم کے کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا انشاء اللہ۔ اگلے دن یعنی 5 جولائی کو صج پانچ بجے ہم سب لہہ کے لیے روانہ ہوئے سات گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم چھے بجے لہہ پہنچ گئے میرے لیے یہ ایک نیا اور دلچسپ تجربہ تھا اور اتنی اونچی پہاڑیوں پر گاڑی چلانا میرے لیے کسی نئے اور مشکل تجربے سے کم نہیں تھا۔کرگل سے لداخ تک اونچے پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے لیکن یہ راستہ زوجیلا کے راستے سے قدرے کشادہ اور بہتر تھا لہہ پہنچ کر ایسا لگا جیسے ہم کسی اور دینا میں پہنچ گئے چاروں جانب اونچے پہاڑ اور بیچ میں دلہن کی ماند سجایا ہوا لہہ شہر انتہائی پُرکشش اور دلچسپ منظر پیش کر رہا تھا۔لہہ کو چاند نگر بھی کہا جاتا ہے ۔لہہ کی سڑکیں، ہوائی اڈہ، ریڈیو سٹیشن، اور صاف صفائی دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے ۔مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی ہے کہ کرگل لہہ کے مقابلے میں کافی پسماندہ ہے خیر لہہ میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم ٹھیک دو بجے پینگ گانگ جھیل (pangong lake) کی طرف روانہ ہوئے بیس کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ہم شیے گاؤں میں پہنچے اور وہاں مسجدِ امیر کبیر میں نماز ادا کی اس مسجد شریف کے بارے میں اگر چہ زیادہ کچھ معلوم نہیں ہوسکا تاہم اس پر درج عبارت کے مطابق یہ مسجد شروع آٹھ سو سال پہلے 1382 میں امیر کبیر نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی تھی اور یہ مسجد آج بھی اپنی اصل ہیت میں موجود ہے پینگ گانگ pangong lake کا یہ راستہ بھی کہیں کہیں پُر خطر اور بہت زیادہ خراب تھا اور بارش کی وجہ سے یہ سفر اور بھی مشکل بن گیا۔کافی مشکلات کے بعد ہم 120 کلومیٹر کا سفر طے کر کے شام کے سات بجے سول تک (Tsoltak) پہنچے اور کوشش کرنے کے باوجود جھیل پر نہیں پہنچ سکے دراصل اس سڑک پر عام گاڑیوں میں جانا مشکل ہوجاتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ xuv گاڑیوں کا ہی استعمال کیا جائے خیر سول تک tsoltak میں رات گزارنے کے بعد ہم اگلے دن صبح چھے بجے تھکے ماندے اس جھیل پر پہنچے لیکن اس جھیل پر پہنچ کر ساری تھکاوٹ ایک دم دور ہو گئی ۔ایک الگ ہی سکون اور اطمنان محسوس ہوا۔اس جھیل کو دیکھ کر کشمیر کے جھیلوں کی یاد تازہ ہوگئ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں کے جھیل نہ صرف گندھے ہو گئے ہیں بلکہ ان کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے اورجبکہ یہ جھیل صاف و شفاف اور کافی وسیع ہے جھیل پر لکھی ہوئی ایک عبارت کے مطابق یہ جھیل 160 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس جھیل کا دوتہائی حصہ چین کے پاس ہے اتنی لمبی، اور چوڑی جھیل میں نے آج تک نہیں دیکھی۔جھیل کے ارد گرد مسافروں اور سیاحوں کے لیے کھانے پینے کا انتظم بھی تھا اور رات کو ٹہرنے کے لیے مسافر کھانے بھی بنائے گئے ہیں ۔ اس جھیل پر 3 idiots نام کی فلم کے لیے عامر خان نے شوٹنگ بھی کی تھی اس لیے 3 idots نام کا ایک کیمپ بھی اس جھیل پر موجود ہے جہاں پر فلم 3 idots میں استعمال ہونے والی سکوٹی بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہے یہ جھیل سطح سمندر سے تقریباً 4500 میٹر کی بلندی پر واقع ہے یہ جھیل اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے کبھی اس کا رنگ نیلا کبھی سفید اور کبھی سرخ ہوجاتا ہے ۔ یہ تینوں رنگ دیکھنے کے لیے اس جھیل پر رات بھر ٹھہرنا ضروری ہے اس جھیل کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے کیونکہ یہ پانی بہت کھارا ہے جھیل پر گزارے ہوئے چند لمحوں کو کیمرے میں قید کرنے کے بعد ہم لہہ کی طرف واپس روانہ ہوئے اور واپسی کے لیے ہم نے (Nubra )جانے والے راستے کا انتخاب کیا لیکن 30 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس راستے کو بارش سے نقصان پہنچا ہے اور یہ آمد رفت کے قابل نہیں ہے اس یے ہم واپس لوٹے اور پھر سے چانگلا(changla) اور (نیشنل پارک ) والا روٹ اختیا گیا اور ٹھیک تین بجے لہہ واپس پہنچے اور وہاں کھانا کھانے کے بعد کرگل کی طرف روانہ ہوئے اور ساتھ گھنٹوں کے مُسلسل سفر کے بعد رات کے ساڑے دس بجے کرگل پہنچے اور وہیں پر رات گزاری دراصل عیدالاضحی کے پیش نظر ہمیں اپنی سیر کو مختصر کرنا پڑا ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ لہہ اور کرگل دونوں جگہوں پر مسافروں اور سیاحوں کو رات بھر رکنے یا کھانے پینے کے لیے کسی بھی دقعت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے جگہ جگہ پر گیسٹ ہاوس اور ہوٹل وغیرہ موجود ہیں رات کو سوٹل میں ٹہرنے کے بعد ہم 7 جولائی کو صبح کے تقریبا 7 بجے کرگل سے روانہ ہوئے اور زوجیلا کا مشکل ترین سفر طے کرنے کے بعد ہم شام 4 بجے اپنے آبائی گاؤں پہنچ گئے ۔یہ سفر میری زندگی کا اب تک کا حسین اور دلچسپ سفر رہا۔ پورے لداخ میں ہر طرف ریت کے پہاڑ نظر آتے ہیں درخت اور پیڑ پودے بہت کم ہیں ۔کہیں کہیں پر آلو اور گندم اگایا جاتا ہے اکثر لوگ کاروباری سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔لوگ سیدھے سادھے اور ملنسار ہیں اکثر دکانوں پر خواتین ہی چیزیں بیچتی ہوئی نظر آئیں ۔لہہ کے اکثر لوگ بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں اس لیے جگہ جگہ پر گمپھائیں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ کرگل میں شیہ مسلم آباد ہیں لداخ کے دونوں ضلعوں میں جانور جم ہی پائے جاتے ہیں ایسا پانی کی کمی اور گاس نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔کہیں کہین پر یاک نظر آئے ۔لہہ پہنچ کر میں نے لہہ کے مایہ ناز سپوت عبدل الغنی شیخ لداخی بھی بھی ملاقات کرنے کی کوشش کی اگر چہ ان سے فون پر بات ہوئی تاہم وقت کی تنگ دامنی کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہو سکی میں آخر پر لداخ جانے والوں کے لیے چند ایک تجاویز پیش کرنا چاہتا ہے امید ہے کہ یہ چند تجاویز لداخ کی سیر پر جانے والوں کے لیے سود مند ثابت ہونگی۔
۔۔خواتین، بزرگوں اور بچوں کو ساتھ لے جانے سے پرہیز کرنا چاہئے
. ۔۔۔لداخ کی سیر کا منصوبہ ہو تو کم سے کم پانچ دن کا منصوبہ بنا لینا چاہیے
تین بجے سے پہلے پہلے pangong lake تک پہنچنا بہتر ہے کیونکہ اکثر تین بجے کے بعد موسم خراب ہوجاتا ہے اور سفر کرنا دشوار ہوجاتا ہے
پینگ گانگ (pangog lake ) کے لیے چھاگلا روٹ کا انتخاب کرنا بہتر ہے بہ نسبت nubra rout کے کیونکہ یہ راستہ اکثر پانی کی ضد میں رہتا ہے۔
بہتر ہے کہ XUV گاڑیوں کا استعمال کیا جائے کیونکہ باقی گاڑیوں کے لیے ان مشکل ترین راستوں پر سفر کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔
اس پورے راستے پر اور ٹیک ( over take) کرنے اور تیز رفتاری سے گاڑی چلانے سے پرہیز کیا جانا چاہیے شکریہ

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

سوپور کا ایک اور چراغ گُل ،آہ!مہرو غلام نبی

Next Post

فریضہ حج انجام دینے کے بعد حجاج کرام کا پہلا قافلہ سرینگر پہنچ گیا

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
فریضہ حج انجام دینے کے بعد حجاج کرام کا پہلا قافلہ سرینگر پہنچ گیا

فریضہ حج انجام دینے کے بعد حجاج کرام کا پہلا قافلہ سرینگر پہنچ گیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan