رو میں ہے رخش عمر دیکھئے تھمے کہاں
نہ ہاتھ ہے باگ پر نہ پا ،رکاب میں
آج ۱۵ جولائی بروزجمعہ سوپور کی ایک اور مشہور و معروف شخصیت انتقال کر گئی ، (ہم سب اللہ کے بندے یں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ) میں جب ’’میرے سوپور تجھ پہ دل قربان‘‘ کے عنوان سے سیریل ایک مقامی اخبار کے لئے لکھ رہا تھا ، تو اس میں سوپو رکی بہت ساری بلند و بالا ، شخصیات ، سماجی ، سیاسی ادبی ، شعرا اور میرے خیال میں تمام شعبوں سے وابستہ ان بہتر شخصیات کا تذکرہ ضرور ہوا لیکن میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ اس ضمن میں بہت ساری اور بھی شخصیات اور اہم شخصیات تھیں جن پر میں اس لئے لکھنے سے رہ گیا کہ لگ بھگ ایکسو سات قسطوں کے بعد یہ سلسلہ میں نے ہی کئی وجوہات پر بند کیا تھا اس کے باوجود کہ میرے چاہنے والوں کو اس سے مایوسی ہوئی تھی لیکن مجھے آج بھی افسوس ہے کہ میرے قلم سے باہر کئی ایسی شخصیات رہ گئیں جن پر میں لکھنا چاہتا تھا ، کئی ایسی بہت ہی معروف اور اپنے شعبوں میں بہت بڑے مقام کے حامل ، جن میں ڈاکٹر یوسف کنجوال ڈاکٹر ندرو ، اور اپنے یہاں کے ڈاکٹر و سائینٹسٹ محترم ایم ایس کھورو، اور ان جیسے کئی افراد ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں آج بھی آفتاب و ماہتاب ہیں ، اس بات کا مجھے غم رہا، مرحوم سیفی ؔ جیسے ماہر تعلیم اور ایجو کیشنسٹ بھی میرے خاکوں سے باہر رہے لیکن کئی ایسی شخصیات ہیں جن پر ان کی وفات پر تھوڈا سا لکھ کر اپنے من اور قلب کی طمانیت کا باعث بنادیا، اور ان ہی شخصیات میں سوپور کے بہت ہی ہر دلعزیز ، مخلص ، بے لوث اور بیباق انسان مہرو غلام نبی بھی تھی جن کا آج انتقال ہوچکا ہے ، ان کے ساتھ ایک مدت تک رابطے میں رہا ، سینکڑوں نشستیں کیں ، اور اسی دوران انہوں نے شاید ایک بار ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرا اصل نام غلام نبی ہے لیکن سوپور کیا بلکہ دور دور تک لوگ انہیں غلام رسول کے نام سے ہی جانتے ہیں ، یہ میری یاداشت میں ہے اور حافظے کی غلطی ہو تو معذرت چاہوں گا بہر حال ہم جب نوجوانی کی سرحدوں اور آخری زینوں پر تھے تو مہرو صاحب اپنے پورے عنفوان شباب میں تھے ، اچھے خاصے قد ، اچھے خاصے ڈیل ڈول ، اور اچھی خاصی مظبوط اور چوڈی چھاتی ،بہت ہی خوبصور ت اور سڈول جوان دکھتے تھے ، جماعت کے متحرک اور زبردست کارکن ، ان کے ساتھ مر حوم محمد امین ڈار ، بھی ہوا کرتے تھے ، اور اگر مجھے غلط یاد نہیں تو انہیں ’’قائد جلوس ‘‘ کے القاب سے بھی موسوم کیا گیا تھا اور ہم نے بس انہیں ان ریلیوں سے ہی جانا تھا جن کی یہ دونوں قیادت کیا کرتے تھے ، یعنی تعارف اتنا سا تھا کہ ان کو جلسے جلوسوں کی قیادت کرتے دیکھا کرتے تھے ، ، لیکن زندگی کے ایک موڈ پر آگے چل کر بلکہ میں یہ کہوں گا کہ بہت آگے چل کر جب ڈرامائی انداز میں میری انٹری سوپور ٹریڈرس فیڈریشن میں ہوئی تو ان صاحب کے ساتھ قربت ہوگئی ، ٹریڈرس فیڈریش سوپور کا قیام عمل میں لایا گیا اور آپ کا کنفیوژن دور کرنے کے لئے اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ یہ فیڈریش حاجی محمد اشرف گنائی کی بحثیت صدر کی سلیکشن کے خلاف اور رد، عمل میں تشکیل پا چکی تھی اور مہرو صاحب اس فیڈریش کے سرپرست اعلیٰ ، علی محمد رادو صدر اور رئیس احد کلو اس کے سیکریٹری تھے ، ان باتوں کا یہ ذرا سا تذکرہ اس لئے لازمی ہوا کہ اسی دورانیہ میں ، میں مہرو صاحب کے نہ صرف قریب آگیا ، بلکہ حق یہ ہے کہ وہ میرے ساتھ وہ کچھ شئیر کرنے لگے جن کا ان کی ذاتی سے زندگی تعلق تھا ، اور شاید ہی میرے خیال میں اپنی ان کیفیات ، احساسات اور جذبات کسی اور سے انہوں شئیر کئے ہوں ، مجھے اسی دوران اس سنگلاخ اور بظاہر چٹان کی مانند مظبوط انسان کو اندر سے پرکھنے کا موقع ملا ا ور بار بار ایسے لمحات میں اس کے اندرجھانکنے کی کوشش کی اور اس با ت کا بار بار قلق ہوا کہ یہ انسان اپنے بہت سے قریبی ساتھیوں ، دوست ، احباب ، اور جن کے لئے اس شخص نے اپنی بھر پور جوانی کا دور نیہ ارپن کیا تھا ، ان سے وہ نہ صرف دلبرداشتہ تھے ، بلکہ میں نے اکثر لمحات میں یہ نتائج اخذ کئے کہ وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر چکے تھے، لیکن جو بات میں اس کی پسند کرتا تھا ، اور جو بات میرے لئے حیران کُن بھی تھی وہ یہ کہ ان کیفیات اور لمحات سے گذرتے ہوئے ، اپنے ماضی میں جھانکتے جھانکتے ایک دم ہنس پڑتے اور اس چپٹر کو بند کرکے دوسرے معاملات پر آجاتے ، یقینی طور پر میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے ان سے انسیت ، ہوگئی تھی ،اور جب بھی کبھی موقع ملا ان کے ساتھ نشستیں ہوئیں ، وہ اپنی صحت آہستہ آہستہ کھو رہے تھے ، لیکن مجھے یاد ہے کہ ٹریڈ کے علاوہ بھی سینکڑوں بار وہ ارباب اقتدار کی محافل میں بلائے بھی جاتے اور خود بھی آکر سوپور اور اپنے علاقے کے مسائل سے انہیں آگا ہ کرتے اگر چہ میں دیکھ رہا تھا کہ اب وہ آسانی سے خود چل بھی نہیں پارے تھے ، لیکن اس کے بعد وہ دور بھی آیا جب لگ بھگ صاحب فراش ہی ہوئے ، اس دوران دوبار ان کے ساتھ میری ملاقتیں ہوئی ، ایک بار تنہائی میں ، جب انہوں نے پھر ایک بار اپنے دل کے پھپھولے پھوڈے، اس سے ملال تھا ، رنجیدہ تھے ، سوگوار تھے کہ وہ لوگ جن کے لئے اس نے ان چراغوں میں اپنا لہو دے کر روشن رکھنے کی کوشش کی انہوںنے کبھی اپنے اس ساتھی کو ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا ، محفل سے اٹھے تو شاید سمجھے تھے کہ یہ لوگ اس سے آواز دیں گے ، بلائیں گے ، قدم اٹھتے گئے ، لیکن نہ آواز ہی دی ، نہ مجھ کو بلایا ، نہ مجھکو بٹھایا ، یہاں تک بہت دور آگیا ، یہ ان باتوں کا متن ہوا کرتا تھا ، میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ کہ اس ٹوٹے ہوئے دل ، ٹوٹی پھوٹی ، اور شکستہ صحت ، ناتوانی اور ضعیفی کے باوجود ، وہ زندہ تھے اور ایسے زندہ تھے ، کہ وہی جوانی کی مسکراہٹ ، وہی جوانی کے ولولے ، وہی جوانی کے حوصلے مہرو صاحب میں آ ج اور آخری لمحے تک موجود تھے ، جو جوانمردی ، اور موت سے بے نیازی کی نشانیاں ہوتی ہیں ، اور جو موت سے ڈرکر نہ تو شکست تسلیم کرتے ہیں نہ زندگی کے غموں اور دکھوں سے ٹوٹ کر گوشہ نشین ہوجاتے ہی ، بلکہ سارا درد اپنے دل کے اندر سنبھا ل کر رکھنے کے باوجود بھی موت کو شکست دیتے ہیں ، یہ احساسات مییرے محط چند دن پہلے کے ہیں جب میں ان کے دولت خانے پر حاضر ہوا، بہت کمزور تھے ، بہت نحیف تھے ، کچھ گھنٹوں پہلے ہی دائیلیسز کراوکے آچکے تھے ، آینکھیں بند تھیں ، مجھے لگا تھا کہ اس بار میں نے بہت دیر کی ہے ، میں ان کے اہل خانہ سے بات کررہا تھا کہ اچانک ، کروٹ لے کر آنکھیں بند کرکے ہی میرا نام لیا،ظاہر ہے کہ میری آواز سے مانوس تھے اور فوراً ہی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن نہ کر پائے ، میں سمجھ چکا تھا کہ شاید یہ آخری ملاقات ہی ہے ، لیکن میں نے رخصت چاہی تو حیران رہ گیا ، ان کے ہونٹوں پر ایسا لگتا تھا کہ وہی جونی کی مسکراہٹ کھیل رہی ہے ، اور دیکھئے کہ ان کے نصیب میں دن بھی لکھا تھا ،نشانِ مرد ِ مومن باتو گویم، چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست